یہ سب چھوڑیے، اس میں مسلمانوں کی خون ریزی ہوگی اور ان میں اختلافات بڑھیں گے، لیکن علی رضی اللہ عنہ نے ان کی ایک نہ سنی اور جنگ کے ارادہ پر ہی قائم رہے، آپ نے فوج کو مرتب کیا، جنگ کا علم محمد بن الحنفیہ کے ہاتھ میں دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میمنہ اور عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما کو میسرہ پر مقرر کیا، یہ بھی کہا گیا ہے کہ عمرو بن سفیان بن عبدالاسد کو میسرہ پر مقرر کیا۔ مقدمہ پر ابولیلیٰ عمر بن جراح یعنی ابوعبیدہ کے بھتیجے کو رکھا، اور قثم بن عباس رضی اللہ عنہما کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا، اب صرف مدینہ سے شام کی طرف کوچ کرنا ہی باقی تھا کہ اسی دوران دوسرے واقعات رونما ہوگئے اور آپ اس میں مشغول ہوگئے۔[1] ان واقعات کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے، یعنی کہ اسی دوران عائشہ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم کی بصرہ روانگی کی آپ کو خبر ملی اور اس کے نتیجہ میں جنگ جمل پیش آ گئی۔ 5۔جنگ جمل کے بعد امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ جریر بن عبداللہ کو معاویہ رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجتے ہیں: بیان کیا گیا ہے کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز سے لے کر سبائیوں کے دوسرے فتنہ معرکۂ جمل کے درمیان پانچ مہینہ اکیس دن کا فاصلہ رہا اور معرکہ جمل کے بعد کوفہ منتقل ہونے کے درمیان ایک ماہ کی مدت کا فاصلہ رہا، جب کہ کوفہ پہنچنے کے بعد معرکۂ صفین کے ظہور تک چھ ماہ[2] اور بعض روایات کے مطابق دو یا تین ماہ [3]کا فاصلہ رہا۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ 12/رجب 36ھ میں بروز پیر کوفہ پہنچے، آپ کی آمد پر آپ سے کہا گیا: قصر ابیض میں تشریف رکھیں، آپ نے فرمایا، نہیں، عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے وہاں اترنا ناپسند کرتے تھے، میں بھی اسے پسند نہیں کرتا ہوں، چنانچہ آپ رحبہ میں اترے، وہاں کی جامع اعظم میں دو رکعت نماز پڑھی، پھر لوگوں سے خطاب کیا، انھیں خیر کی دعوت دی، برائیوں سے روکا اوراس ابتدائی خطاب میں اہل کوفہ کو سراہا۔ پھر جریر بن عبداللہ البجلی کو جو کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد سے ہمدان کے گورنر تھے اور اشعث بن قیس کو جو کہ عہد عثمان رضی اللہ عنہ سے آذربائیجان کے امیر تھے، انھیں پیام بھیجا کہ وہاں کے لوگوں سے ہماری خلافت پر بیعت لیں اور یہاں آجائیں۔ چنانچہ ان دونوں نے ایسا ہی کیا، پھر جب علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ کے پاس کسی کو بھیج کر اپنی خلافت پر بیعت لینے کا ارادہ کیا تو جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین! میں ان کے پاس جاتا ہوں، کیونکہ میرے اور ان کے درمیان گہرے تعلقات اور دوستی ہے، میں ان سے آپ کے لیے بیعت لوں گا، تب تک اشتر بول اٹھاکہ اے امیر المومنین! انھیں نہ بھیجئے، مجھے خدشہ ہے کہ کہیں یہ بھی اسی کے موافق نہ ہوجائیں، لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جانے دو، چنانچہ آپ نے انھیں ایک خط دے کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور اس میں اطلاع دی کہ تمام مہاجرین و انصار میری بیعت پر متفق ہیں اور جنگ جمل میں جو کچھ ہوا وہ تمھارے سامنے ہے، اس طرح آپ رضی اللہ عنہ نے انھیں بیعت کرنے کی دعوت دی، جب جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ خط لے کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور انھیں خط |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |