آنے لگا ہے، آپ کیو ں نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس ارادہ سے جاتے کہ وہ آپ سے ان کا نکاح کردیں، میں نے کہا: میرے پاس ہے ہی کیا کہ جس سے نکاح کروں، اس نے کہا: اگر آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ رشتہ آپ سے کردیں گے، وہ مسلسل مجھے امید دلاتی رہی یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا لیکن آپ کی ہیبت و جلال کی وجہ سے بات نہ کرسکا، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود گویا ہوئے اور پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ کیا کوئی ضرورت ہے؟ میں خاموش رہا، آپ نے فرمایا: شاید تم فاطمہ سے متعلق پیغام دینے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا، ہاں۔ پھر آپ نے پوچھا: کیا تمھارے پاس ادائیگی مہر کے لیے کچھ ہے؟ میں نے کہا: کچھ نہیں ہے، اے اللہ کے رسول! آپ نے پوچھا: میں نے تمھیں جو زرہ دی تھی اس کا کیا کیا؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں علی کی جان ہے وہ حطمی (کشادہ) زرہ تھی، اور اس کی قیمت چار سو درہم تھی۔ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے فاطمہ کی شادی تم سے کردی، اسے بطور مہر فاطمہ کے پاس بھیجو، پس یہی فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حق مہر تھا۔[1] پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر ایک مشکیزہ ایک چمڑے کا تکیہ جس میں اذخر بھری ہوئی تھی دے کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رخصت کیا۔[2] اور شیعی روایات میں آیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، پھر میں نے اپنی زرہ لی اور اسے لے کر بازار میں گیا اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ چار سو درہم میں فروخت کردیا، جب میں نے دراہم اپنے ہاتھ میں لے لیے اورانھوں نے زرہ مجھ سے لے لی، تو کہنے لگے: اے ابوالحسن! کیا اس خرید و فروخت سے میں زرّہ اور ان دراہم کا تم سے زیادہ حق دار کوئی نہیں ہے؟ میں نے کہا: ہاں ضرور۔ پھر کہا: لو یہ زرہ میری طرف سے تمھارے لیے ہدیہ ہے، چنانچہ میں دراہم اور زرّہ دونوں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے رکھ دیے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا تھا، وہ بھی بتا دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔[3] 2۔ شادی: اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں فاطمہ بنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصتی میں موجود تھی، صبح ہوئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم گھر کے دروازہ پر آئے اور کہا: ((یَا أُمَّ أَیْمَنَ! اُدْعِي لِيْ أَخِي)) ’’اے ام ایمن میرے بھائی کو آواز دو‘‘ میں کہنے لگی: وہ تمھارے بھائی ہیں اور ان سے آپ اپنی بیٹی کا نکاح کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ((نَعْمَ! یَا أُمَّ أَیْمَنَ)) ’’ہاں، اے ام ایمن‘‘ وہ کہتی ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ باہر نکلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جسم پر پانی کے چھینٹے مارے، اور ان کے لیے دعا خیر کی، پھر فرمایا: ((اُدْعُوا لِيْ فَاطِمَۃَ)) ’’فاطمہ کو میرے پاس بلاؤ۔‘‘ اسمائ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ وہ آئیں اور شرم سے ان کے قدم آگے نہیں بڑھ رہے تھے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |