Maktaba Wahhabi

947 - 1201
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ سورۂ نور کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’تمام علماء قطعیت سے اس بات پر متفق ہیں کہ آیت کریمہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے اعلان براء ت کے بعد بھی جو شخص آپ کو گالیاں دے اور تہمت لگائے وہ کافر ہے اس لیے کہ وہ قرآن کا دشمن ہے۔‘‘ [1] اور علامہ قرطبی لکھتے ہیں: ’’پس ہر وہ شخص جو آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا ) کو اس تہمت کی گالی دے، جس سے اللہ نے آپ کو پاک کردیا ہے تو وہ اللہ کی تکذیب کرتا ہے اور اللہ کی تکذیب کرنے والا کافر ہے۔‘‘[2] مسلم خلفاء اور ان کی حکومتوں کی تکفیر: روافض شیعہ یا شیعہ امامیہ کے مذہب میں ان کی حکومت کے علاوہ ہر حکومت ناجائز اور حرام ہے اور اس کا حاکم طاغوت ہے جو غیر اللہ کی عبادت کر رہا ہے۔ اسی طرح اس پر بیعت کرنے والا بھی غیر اللہ کی عبادت کر رہا ہے۔ شیعہ محدث ’’الکلینی‘‘ اس مفہوم کو متعدد ابواب میں ا س طرح ثابت کرتا ہے: ’’باب اس بیان میں کہ جس نے اپنی نااہلی کے باوجود امامت کا دعویٰ کیا اور جس نے تمام یا چند ایک ائمہ کا انکار کیا اور جس نے نااہلوں کو امامت کا مستحق ٹھہرایا۔‘‘اس باب کے تحت مذکورہ محدث نے اپنے ائمہ کی بارہ احادیث نقل کی ہیں۔[3] اور ’’باب اس بیان میں کہ جو اللہ کے نامزد کیے ہوئے امام کے بغیر اللہ کا تابعدار بنا۔‘‘ اس باب میں پانچ احادیث لکھی ہیں۔[4] ان کے عقیدہ کے مطابق علی اور حسن رضی اللہ عنہما کے علاوہ تمام مسلم خلفاء طاغوت ہیں، اگرچہ وہ حق کی دعوت دیتے رہے، اہل بیت کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہے اور اللہ کا دین قائم کرتے رہے کیونکہ وہ کہتے ہیں: حکومت کا ہر وہ جھنڈا جو قائم (مہدی منتظر) سے پہلے اٹھایا جائے اس کا اٹھانے والا طاغوت ہے۔[5] الکافی کے شارح اس پر مزید لکھتے ہیں: ’’اگرچہ اس کا اٹھانے والا حق کی دعوت دیتا ہو۔‘‘[6] پھر مجلسی نے اپنے معیار تحقیق کے مطابق اس روایت پر صحت کا حکم لگایا ہے۔[7] مسلم ممالک کو دار الکفر قرار دینا: رافضی روایات میں کئی مخصوص مسلم ممالک کو سب و شتم کا نشانہ بنایا گیا ہے اور نام لے لے کر ان کے باشندوں کی تکفیر کی گئی ہے۔ ان ممالک میں اکثریت ان جگہوں کی ہے جہاں اسلامی احکامات کی زیادہ پابندی ہے،
Flag Counter