Maktaba Wahhabi

197 - 1201
4: چند متفر ق فوائد: فتح کی بشارت سننے کے باوجود پوری رات صحابہ کی توجہ کا مرکز یہی موضوع رہا کہ وہ کون سعادت مند ہوگا جو اللہ اور اس کے رسول کی محبت ومحبوبیت کی عظیم بشارت کا مستحق ہوگا اور اس کے ہاتھوں فتح نصیب ہوگی،یقینا یہ صحابہ کرام کی عظمت و فضیلت اور تقدیرالٰہی پر ایمان کامل ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے کہ وہ جھنڈا ایسے فرد کو ملا جس نے اس کے لیے کوشش ہی نہیں کی، اور جس نے کوشش کی وہ اس سے محروم رہا، صحابہ کرام نے رات بڑی بے صبری سے کاٹی تھی اور صبح سویرے ان میں سے ہر ایک یہ تمنا اور امید لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا کہ شاید عَلَمْ ہمیں ملے، حالانکہ وہ نہیں پاسکے اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جو کہ مریض تھے اور انھوں نے حصول عَلَمْ کے لیے کوشش بھی نہ کی تھی وہ اس سعادت سے سرفراز ہوئے۔ اسی طرح علی رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ ’’تم اپنی مہم پر اطمینان سے گامزن ہوجاؤ‘‘ اس میں ادب اور سلیقہ کا سبق دیا گیاہے کہ کسی کام میں عجلت نہ کرو، بلکہ غور وفکر کے بعد قدم اٹھاؤ۔ قتال سے پہلے اسلام کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دینے کی تعلیم دی گئی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، انھیں اسلام کی دعوت دو اور بتاؤ کہ ان پر اللہ کا کیا حق ہے‘‘ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اقدام جنگ سے قبل اسلام اور اس کے حقوق سے آگاہ کردو، صرف اسلام لانے کا حکم دے دینا کافی نہیں ہے، کیونکہ ممکن ہے وہ زبان سے اسلام لے آئیں اور اس کے حقوق کی ادائیگی نہ کریں لہٰذا ٹھوس نگرانی و تعلیم ضروری ہے تاکہ پھر کفر کی طرف نہ پلٹ جائیں۔ اسی طرح ایسے داعی اسلام کی فضیلت و ثواب کا اعلان ہے جس کے ذریعہ سے کوئی ایک فرد ہی راہ راست پر آجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’واللہ تمھارے ہاتھ پر اگر ایک آدمی بھی ہدایت پاجائے تو تمھارے لیے بے شمار سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘ مقصود یہ تھا کہ دنیا کی عظیم ومحبوب ترین چیزوں سے بھی زیادہ بہتر ہے، یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ’’سرخ اونٹوں کے صدقہ کے برابر ثواب ہے‘‘ جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔ ایک بات یہ بھی فائدہ کی ہے کہ فتویٰ دیتے ہوئے تاکید واہمیت کے اظہار کے لیے قسم کھانا درست ہے، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں فرمایا: ’’فَوَاللّٰہِ لِأَنْ یَّہْدِيَ اللّٰہُ‘‘ پس آپ نے قسم کھائی، حالانکہ یہاں قسم کا کوئی مطالبہ نہ تھا، آپ اس قسم کے ذریعہ سے صرف انھیں دعوت الی الخیر پر ابھارنا چاہتے ہیں۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ فتح مکہ اور غزوۂ حنین میں: فتح مکہ کے موقع پر متعدد پہلوؤں سے علی رضی اللہ عنہ نے اپنا کردار نبھایا، ذیل میں انھی مواقف پرروشنی ڈالی جارہی ہے۔ 1: قریش کے مفاد کي جاسوسي کو ناکام بنانا: حسن بن محمد بن علی، عبید اللہ بن ابورافع سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مجھے، زبیر اور مقداد رضی اللہ عنہما کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ر وضۂ خاخ جانے کا حکم دیا اور کہا کہ وہاں اونٹ پر سوار ایک عورت جارہی ہے اس کے پاس ایک خط ہے، اسے اس سے چھین لاؤ، ہم تیزی سے اپنے گھوڑوں کو ایک
Flag Counter