دوسرے سے آگے نکالتے ہوئے وہاں پہنچے، وہاں ہم نے اس عورت کو پالیا ہم نے کہا: خط نکالو، عورت نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہم نے کہا: خط دے دو، ورنہ ہم کپڑے اتار کر تمھاری تلاشی لیں گے۔ چنانچہ اس نے سر کا جوڑا کھولا اور بال کے اندر سے خط نکال کر دے دیا، ہم وہ خط لے کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے خط کھولا تو دیکھا کہ حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے مشرکین مکہ کے نام لکھا ہے اور اس میں اللہ کے رسول کی بعض تیاریوں کا ذکر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب کو بلایا اور کہا: اے حاطب یہ کیاہے؟ حاطب نے کہا: میرے متعلق فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کیجیے واقعہ یہ ہے کہ میں قریش میں ایک اجنبی کی حیثیت سے تھا اور آپ کے ساتھ جو مہاجرین ہیں دور یا نزدیک سے ان کا کوئی نہ کوئی قریبی مکہ میں موجود ہے جو ان کے بال بچوں کی مدد کرتا ہے، پس چونکہ ان لوگوں سے میرا کوئی نسبی و خاندانی تعلق نہ تھا او ر میرے اہل وعیال وہیں تھے، میں نے اس لیے سوچا کہ کیوں نہ ان کے ساتھ کوئی احسان کردوں کہ جس کے بدلہ وہ ہمارے بال بچوں کی مدد کریں۔ آپ یقین کریں کہ میں نے کسی کفر نفاق یا ارتداد ودغا کی وجہ سے ایسا نہیں کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّہُ قَدْ صَدَقَکُمْ))یہ سچ کہہ رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! مجھے اجازت دیں میں اس منافق کی گردن ماردوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إِنَّہُ قَدْ شَہِدَ بَدْراً، وَ مَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ إِلَی أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔))[1] ’’یہ بدر میں حاضر ہوچکے ہیں، تمھیں کیا معلوم کہ اللہ نے ان پر نظر کرم کی ، اور کہا: جو چاہو عمل کرو، میں نے تمہیں بخش دیا۔‘‘ 2: اے ام ہاني جسے تم نے امان دے دي ہم نے بھي اسے امان دي: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بالائی حصہ (کدائ) میں داخل ہوئے اس وقت میرے سسرالی رشتہ بنی مخزوم کے دو آدمی حارث بن ہشام اور زبیر بن امیہ بھاگ کر میری پناہ میں آگئے، وہ اس وقت ہبیرہ بن ابی وہب مخزومی کی زوجیت میں تھیں، میرے بھائی علی رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اورکہا: اللہ کی قسم میں ان دونوں کو ضرور قتل کروں گا، میں نے ان دونوں کو گھر میں چھپا دیا، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ مکہ کے بالائی حصہ پر قیام فرما تھے او رایک ٹب پانی سے جس میں گوندھے ہوئے آٹے کا اثر تھا، آپ غسل فرمارہے تھے۔ آپ کی بیٹی فاطمہ ایک کپڑا سے پردہ کیے ہوئے تھیں، غسل کے بعد آپ نے اپنا کپڑا تبدیل فرمایا، پھر آٹھ رکعت چاشت کی نماز پڑھی، پھر میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے خوش آمدید کہتے ہوئے پوچھا اے ام ہانی کیسے آنا ہوا؟ میں نے دونوں آدمیوں، اور علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ کو خبردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((قَدْ اَجَرْنَا مَنْ اَجَرْتِ وَ اَمَّنَّا مَنْ اَمَّنْتِ فَلَا یَقْتُلْہُمَا۔))[2] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |