Maktaba Wahhabi

991 - 1201
وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ﴿٥٥﴾ (المائدۃ: 55) ’’تمھارے دوست تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے، وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں۔‘‘ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے بارے میں ہے، شیعہ جماعت کے سردار طوسی کا کہنا ہے کہ قرآن میں آپ (علی رضی اللہ عنہ ) کی امامت کی قوی ترین دلیل اللہ کا یہ ارشاد ہے: إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ ﴿٥٥﴾ (المائدۃ: 55) [1] طبرسی کا قول ہے کہ یہ آیت کریمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوراً بعد امامت علی رضی اللہ عنہ کی صحت کی واضح ترین دلیل ہے۔[2] مذکورہ دونوں عالم ہی نہیں بلکہ تقریباً ان کے تمام تر اکابر علماء متفق ہیں کہ یہ آیت کریمہ امامت علی سے متعلق سب سے مضبوط دلیل ہے کیونکہ وہ اپنی تمام ہی معتبرمصنفات میں اس موضوع کو چھیڑتے ہوئے سب سے پہلے اسی آیت سے استدلال کرتے ہیں۔[3] وجہ استدلال: رہی یہ بات کہ مذکورہ آیت سے وہ کس طرح استدلال کرتے ہیں کہ جس سے وہ اپنا مقصد پورا کرتے ہیں، سو اس باب میں ان کا کہنا ہے کہ تمام عام و خاص محدثین و مفسرین متفق ہیں کہ یہ آیت کریمہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس موقع پر نازل ہوئی جب آپ نے متعدد صحابہ کی موجودگی میں دوران نماز ایک مسکین کو اپنی انگوٹھی صدقہ میں دے دی، صحاح ستہ میں یہ بات تفصیل سے مذکور ہے۔[4] نیز آیت کریمہ میں ’’إِنَّمَا‘‘ باتفاق اہل لغت حصر کے لیے ہے اور ’’وَلِیٌّ‘‘ بمعنی ’’اَوْلٰی لِلتَّصَرُّفِ‘‘ ہے جو کہ امام اور خلیفہ کے مرادف ہے۔[5] تنقید و تردید: آپ دیکھ رہے ہیں کہ آیت کریمہ سے استدلال کرتے وقت نص آیت سے استدلال نہیں کیا، بلکہ آیت کے سبب نزول سے استدلال کیا گیا ہے، کیونکہ آیت کریمہ کے اندر ان کے مراد کی کوئی چیز نہ تھی، اس طرح ان کا استدلال روایت سے ہوا نہ کہ قرآن سے۔ لہٰذا اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ روایت صحیح اور ثابت ہے؟ اور کیا ان کی وجہ استدلال درست ہے؟ یہ ساری باتیں آئندہ چند نقاط میں واضح کی جارہی ہیں۔ ا: ارکان شیعہ کا یہ کہنا کہ تمام اہل سنت کا اتفاق ہے کہ یہ آیت کریمہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی بہت بڑا
Flag Counter