اس واقعہ سے مستنبط ہونے والی چند اہم و اعلیٰ اقدار : ٭ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ اولویات اور اہم ترین امور کی ترتیب و ترجیح کے ذریعہ سے بڑی حکمت عملی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اقتصادی بحران کو حل کیا، جس سے باشندگان مدینہ گزر رہے تھے، چنانچہ اہل صفہ کو پیٹ بھر کھانا دینا ایسی اہم ضرورت تھی کہ فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہما کو خادم کو اتنی ضرورت نہ تھی، اس لیے آپ نے اہل صفہ کو ان پر ترجیح دی، یہی وجہ تھی کہ اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی وسائل وضع کیے تھے۔ ٭ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی زندگی پر اس تربیت کا گہرا اثر پڑا تھا کہ زمانہ گزرتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ آپ مسلمانوں کے خلیفہ بن گئے، پھر بھی آپ کی زندگی پر اسی کے اثرات نمایاں رہے، آپ دنیا اور اس کی رنگینیوں سے کافی دور رہے، حالانکہ زمین کے خزانے، اور اس کی رعنائیاں آپ کے دست سلطنت میں تھیں، یہ دنیا بے زاری صرف اسی وجہ سے تھی کہ ذکر الٰہی سے آپ کا دل و دماغ معمور تھااور تکبیر و تسبیح کی وصیت نبوی کوحرزجاں بنا لیا تھا، آپ کا بیان ہے کہ جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ کلمات سکھلائے میں نے انھیں کبھی نہ چھوڑا، آپ کے ایک ساتھی نے پوچھا: معرکۂ صفین کی رات میں بھی؟ آپ نے فرمایا: معرکہ صفین کی رات میں بھی۔[1] 6۔ ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں، جب وہ ہمیں بیدار کرنا چاہے گا تبھی ہم بیدار ہوں گے: سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت میرے اور فاطمہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے او رہمیں نماز کے لیے بیدار کیا، پھر اپنے گھر لوٹ گئے اور کچھ دیر رات گئی نماز پڑھتے رہے، آپ نے ہماری بیداری کی کوئی آہٹ نہیں سنی، لوٹ کر پھر ہمارے پاس آئے، ہمیں بیدار کیا، فرمایا: ((قُوْمَا فَصَلِّیَا)) ’’تم لوگ اٹھو، نماز پڑھو۔‘‘ میں اٹھ کر بیٹھ گیا، اورآنکھیں ملتے ہوئے کہنے لگا: اللہ کی قسم ہم اتنی ہی نماز پڑھ سکیں گے جتنی ہماری تقدیر میں لکھی ہوگی، ہماری جانیں اللہ کے ہاتھوں میں ہیں، جب وہ ہمیں بیدار کرنا چاہے گا تبھی ہم بیدار ہوں گے، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگے اور اپنی رانوں پر ہاتھ مارتے ہوئے کہہ رہے تھے: ((مَا نُصَلِّيْ إِلَّا مَا کُتِبَ لَنَا، مَا نُصَلِّي اِلَّا مَا کُتِبَ لَنَا: وَكَانَ الْإِنسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا ﴿٥٤﴾ (الکہف:54)۔))[2] ’’ہم اتنی ہی نماز پڑھ سکیں گے جتنا اللہ نے ہماری تقدیر میں لکھا ہوگا، ہم اتنی ہی نماز پڑھ سکیں گے جتنا اللہ نے ہماری تقدیر میں لکھا ہوگا او رانسان بیشتر چیزوں کے لیے جھگڑالو پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ اس واقعہ میں صاف نظر آرہا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق کے لیے کس قدر مخلص اور علم نبوی کی نشر واشاعت کے شیدائی تھے۔ آپ غور کریں کہ یہ واقعہ صرف آپ کی ذات سے متعلق تھا، آپ چاہتے تھے تو اسے چھپا لیتے، معلوم رہے یہ واقعہ تہجد کی نماز کا تھا، جو کہ واجب نہیں، پھر بھی آپ نے اسے عام کیا، پس مسلمانوں کے حق میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |