لیکن ان تمام اقوال میں اسنادی حیثیت سے صحیح ترین بات خلیفہ بن خیاط کی ہے جو قتادہ کی سند سے مروی ہے۔ 10۔اِن پر ہم ہاتھ کیوں اٹھائیں جب کہ یہ مسلمان خواتین ہیں: لڑائی ختم ہونے کے بعدامیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر گئے، ان سے اجازت مانگی اور سلام کیا، عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں مرحبا کہا، جب کہ بنوخلف کے مکان میں عورتیں اپنے مقتولین پر رو رہی تھیں، مقتولین میں خلف کے دوبیٹے عبداللہ اور عثمان بھی تھے۔ عبداللہ، عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ لڑتے ہوئے مارے گئے تھے اور عثمان، علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ، جب علی رضی اللہ عنہ خلف کے مکان پر گئے تو عبداللہ کی بیوی، ام طلحہ (الطلحات) نے کہا: اللہ تمھاری اولاد کو یتیم کردے، جس طرح تم نے ہماری اولاد کو یتیم کردیا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ خاموش رہے، جب نکلنے لگے تو اس عورت نے پھر وہی بات دہرائی، آپ پھر خاموش رہے، ایک آدمی آپ سے کہنے لگا: اے امیر المومنین! آپ اس عورت کی بات پر خاموش ہیں آپ سنتے نہیں وہ کیا کہہ رہی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’تمھارا ستیاناس ہو، جب ہمیں مشرکہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانے سے منع کیا گیا ہے توان پر ہاتھ کیوں اٹھاؤں ، یہ تو مسلمان ہیں۔‘‘[1] 11۔بصرہ کا گورنر بننے سے ابوبکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ کی معذرت: عبدالرحمن بن ابی بکرہ ثقفی رضی اللہ عنہ امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور آپ سے بیعت کی، آپ نے پوچھا: بیمار خور کہاں ہیں؟ (آپ ان کے والد سے متعلق پوچھ رہے تھے) انھوں نے کہا: اے امیر المومنین! اللہ شاہد ہے کہ وہ بیمار ہیں، وہ آپ کو شاداں و فرحاں دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: چلو میرے آگے آگے چلو، آپ وہاں گئے اور ان کی عیادت کی، ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیماری کی معذرت پیش کی، آپ نے انھیں معذور سمجھا، پھر آپ نے انھیں بصرہ کی امارت سنبھالنے کی پیشکش کی، لیکن آپ نے انکار کردیا اور کہا: آپ کے خاندان ہی میں ایک صاحب ہیں جن پر لوگ مطمئن ہیں، پھر آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف اشارہ کیا ہے، چنانچہ ان کی رہنمائی پر آپ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو وہاں کا گورنر بنا دیا اور ان کے ساتھ زیاد بن ابیہ کو خراج اور بیت المال کا امیر مقرر کردیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کو حکم دیا کہ زیاد کی بات سنتے رہیں گے۔[2] 12۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کرنے والے کے بارے میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا موقف: ایک آدمی نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ دروازہ پر دو آدمی عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں گستاخی کر رہے ہیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ دونوں کو پکڑو اور ان کے کپڑے اتار کرکے سو سو کوڑے لگاؤ۔[3] چنانچہ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے ان پر یہ سزا نافذ کی۔ 13۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا دفاع: محمد بن عریب کا بیان ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور علی رضی اللہ عنہ کے پاس عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں نازیبا کلمات کہے، |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |