Maktaba Wahhabi

846 - 1201
مناظرہ سے پہلے ایسی تمہید پیش کرنا جو حق کے راستہ میں مفید نتائج کا حامل ہو: چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے شروع ہی میں مناظرہ کا آغاز ہونے سے پہلے کہا: میں تمھارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کے داماد کے پاس سے آرہا ہوں، انھیں پر قرآن کا نزول ہوا، وہ اس کے معنی و مطلب کو تم سے زیادہ جانتے ہیں، ان کا کوئی فرد تم میں نہیں ہے۔[1] مناظرہ کے دوران فریق مخالف کی رائے کا احترام: فریق مخالف کی رائے کا احترام ضروری ہے، تاکہ ہر ایک کی بات غور سے سنی جاسکے اور اس کی رائے کا احترام کیا جاسکے، خوارج سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مناظرہ میں یہ بات صاف طور سے دکھائی دیتی ہے۔[2] ہزاروں کو اللہ کی توفیق ملتی ہے: خوارج کے ہزاروں لوگوں پر یہ اللہ کی خاص توفیق رہی کہ انھیں حق کی طرف لوٹا دیا، چنانچہ معرکہ نہروان میں شریک ہونے والوں کی تعداد چار ہزار سے بھی کم رہ گئی، انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ اولاً اللہ کے فضل سے اور ثانیاً ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علم، قوت اور حجت و بیان کے نتیجہ میں ان کے شبہات زائل ہوگئے، آپ نے ان آیات کی تفسیر کے حوالہ سے جو ان کے نزدیک صحیح تھیں اور قرآن کریم کے معانی کو واضح کرنے والی سنت سے ان کے استدلال کی غلطی کو بیان کیا۔[3] ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان کہ ان (صحابہ) کا کوئی فرد تم میں نہیں ہے: یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی صریح عبارت ہے کہ خوارج میں کوئی بھی صحابی رسول نہ تھا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اِس بات پر کسی خارجی نے کوئی اعتراض نہیں کیا، یہ روایت صحیح اور ثابت ہے۔ میرے اپنے علم کے مطابق علمائے اہل سنت کا کوئی فرد واحد بھی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ خوارج میں بعض اصحاب رسول بھی تھے۔ یہ خام خیالی کہ ان میں صحابہ بھی تھے، خوارج کی ہے، جس کی کوئی ٹھوس علمی دلیل ان کے پاس بھی نہیں ہے۔ مناظرہ کے وقت اتفاقی پوائنٹ کی تحدید: چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول میں یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا کہ اگر میں کتاب اللہ اور سنت رسول سے تمھاری بات غلط ٹھہراؤں تو کیا تم لوٹو گے؟ انھوں نے جواباً کہا تھا: ہاں۔ پس اس کلام میں ایک اہم درس یہ پوشیدہ ہے کہ مناظرہ میں شریک دونوں فریقوں کو کسی متفقہ نقطہ پر راضی ہونا چاہیے، تاکہ کسی صحیح نتیجہ تک رسائی ممکن ہوسکے۔
Flag Counter