Maktaba Wahhabi

483 - 1201
الْعَقُوْرُ۔))[1] ’’پانچ جانور فاسق ہیں جو حرم میں بھی مار دئیے جائیں گے چوہیا، بچھو، کوّا، چیل، کاٹنے والا کتا۔‘‘ 4۔ طواف میں شک واقع ہونا: امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جب تم طواف کرو اور تمھیں شک واقع ہو جائے کہ تمھارا طواف پورا ہوا یا نہیں تو اسے کمی پر محمول کرکے پورا کرلو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ زیادتی پر عذاب نہیں دے گا۔[2] 5۔ طواف میں بھول جانا: اگر کوئی شخص بھول کر طواف میں مسنون سے زائد چکر لگا لے تو علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اسے مزید چکر لگا کر دو طواف پورے کرلینا چاہیے، آپ نے فرمایا کہ مثلاً کسی نے طواف کے آٹھ چکر لگالیے تو مزیدچھ چکر لگا ئے تاکہ دو طواف مکمل ہوجائیں اور پھر وہ طواف کی چار رکعت نماز ادا کرے۔[3] 6۔ حج میں نیابت: علامہ ابن حزم وغیرہ نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس حج کرنے کی مالی استطاعت ہو لیکن بڑھاپے یا کسی اور وجہ سے معذور ہو تو علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ایسے شخص پر ضروری ہے کہ کسی کو اپنا نائب بنا دے۔[4] آپ نے بہت بوڑھے شخص کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے خرچ پر کسی کو حج کے لیے بھیجے جو اس کی طرف سے حج کرے۔[5] اس فتویٰ کی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث ہے جس میں قبیلۂ خثعم کی ایک عورت نے کہا تھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرے باپ بہت ہی بوڑھے ہیں اور ان پر حج کا فریضہ عائد ہوتاہے، لیکن وہ اپنی سواری پر سوار ہونے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (ان کا کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((فَحُجِّیْ عَنْہُ۔))[6] ’’ان کے طرف سے تم حج کرو۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور دیگر علماء کے نزدیک وجوب حج کے لیے مال کی استطاعت کافی ہے اور جسمانی استطاعت اگر ہے تو بہتر ورنہ دوسرے سے حج بدل کروائے۔[7] 7۔ جمرات کی رمی میں شک واقع ہونا: اگر حاجی رمی جمرات کی تعداد میں شک میں واقع ہوجائے تو علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک مشکوک عدد کا اعادہ کرے، چنانچہ ابومجلز سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: میں نے رمی جمار کی ہے، لیکن نہیں جانتا کہ چھ مرتبہ رمی کی یا سات مرتبہ، انھوں نے جواب دیا: یہ مسئلہ لے کر علی رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ، وہ آیا اور پوچھا۔ آپ نے
Flag Counter