آدمی کی لاش تلاش کرو، اس لیے کہ مخالفین میں اس کا وجود ہی ہماری حقانیت اور درستگی کی دلیل ہے۔ کافی تلاش و جستجو کے بعد وہ لاش آپ کو ملی بایں طور کہ آپ نہر ’’نہروان‘‘ کے کنارے کئی لاشوں کے پاس سے گزرے، جو ایک دوسرے کے اوپر پڑی ہوئی تھیں، آپ نے فرمایا: انھیں الگ الگ کرو، دیکھاگیا تو سب سے نیچے زمین پر اسی ناقص الید کی لاش تھی، آپ نے برجستہ اللہ اکبر کہا اور فرمایا: اللہ نے سچ کہا اور اس کے رسول نے تبلیغ کا حق ادا کردیا، پھر آپ نے سجدۂ شکر ادا کیا اور آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی سجدہ شکر ادا کیا اور ان کے چہرے خوشیوں سے بھر گئے۔[1] 5۔ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کا خوارج سے برتاؤ: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے جنگ سے پہلے اور بعد میں خوارج کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاؤ کیا، جونہی جنگ ختم ہوئی آپ نے فوج میں اعلان کردیا کہ کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی زخمی کو قتل نہ کیا جائے، نہ کسی کا مثلہ کیا جائے، شقیق بن سلمہ جو ابووائل کی کنیت سے معروف ہیں اور فقہائے تابعین میں سے ہیں اور علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کی تمام جنگوں میں شریک رہے، وہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل اور جنگ نہروان[2] کے موقع پر کسی کو گالی نہیں دی، آپ نے نہروان والوں کا چھوڑا ہوا اثاثہ کوفہ اٹھوا لیا اور عام اعلان کردیا کہ جو اپنا سامان پہچانتا ہو وہ لے جائے، لوگ آتے گئے اور پہچان کر اپنا سامان لیتے گئے، آخر میں صرف ایک ہانڈی بچی جسے ایک آدمی آیا اور لے کر گیا۔ یہ روایت متعدد اسناد سے مروی ہے۔[3] آپ نے خوارج کے سامان جنگ کے علاوہ کوئی مال بطور غنیمت اپنی فوج میں تقسیم نہیں کیا جسے وہ لے کر آئے تھے، آپ نے خوارج کی تکفیر نہیں کیا، کیونکہ جنگ شروع ہونے سے پہلے پوری کوشش کی کہ انھیں مسلمانوں کی جماعت میں واپس لوٹا لیں، آپ نے انھیں سمجھایا، اور جنگ کے نقصانات سے ڈرایا، پھر بہت سارے لوگ لوٹ بھی آئے، علامہ ابن قدامہ فرماتے ہیں: ’’آپ نے یہ پہلو اس لیے اختیار کیا تھا کہ انھیں روکنا، اور ان کی برائیوں کو ہٹانا مقصود تھا، نہ کہ انھیں قتل کرنا، اگر صرف گفت و شنید سے مسئلہ حل ہوجاتا تو وہی جنگ سے بہتر تھا، اس لیے کہ جنگ میں دونوں کا نقصان تھا، پس آپ کا یہ موقف اس بات کی دلیل ہے کہ خوارج مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے، جیسا کہ بہت سارے علماء اس بات کے قائل ہیں۔‘‘ [4] البتہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ انھیں فاسق کا نام دیتے تھے، چنانچہ مصعب بن سعد بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا: |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |