Maktaba Wahhabi

1021 - 1201
اسعد بن سہل بن حنیف، اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ، ابان بن صالح اور ابراہیم بن میسرہ جیسے آپ کے بہت سے شاگرد ہیں جو آپ سے احادیث روایت کرتے ہیں۔ اور ان کے علاوہ نامعلوم کتنے تابعین آپ کے شاگرد ہیں جن سے ہم ناواقف ہیں، اسی تحقیق و جستجو کے دوران میں قاضی ابوبکر الباقلانی کی ایک ضخیم مجلد کتاب سے واقف ہوا جو حدیث ’’طیر‘‘ کی سنداً و متناً تضعیف پر مشتمل ہے اور وہ کتاب قابل مطالعہ ہے۔[1] ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ابن مردویہ نے اس حدیث کو تقریباً بیس (20) اسناد سے نقل کیا ہے، لیکن سب تاریکی میں ہیں اور سب متکلم فیہ ہیں اس لیے میں نے اس پر زیادہ طول طویل بحث نہ کی ہے۔[2] ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ’’حدیث طیر محققین علماء اور اہل فن محدثین کے نزدیک من گھڑت اور جھوٹی ہے۔‘‘[3] امام زیلعی فرماتے ہیں کہ کتنی ایسی احادیث ہیں جن کے راوی بہت زیادہ ہیں اور ان کی سندیں متعدد ہیں حالانکہ وہ احادیث ضعیف ہوتی ہیں۔[4] 2۔حدیث ’’دار‘‘: اثنا عشری شیعہ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کی نامزدگی کے لیے حدیث ’’دار‘‘ سے بھی استدلال کرتے ہیں، چنانچہ ان کے خیال میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز بعثت کے وقت ہی جب آپ نے کفار مکہ پر اسلام پیش کیا، اور ان سے بتوں کی پرستش سے بے زاری اور اللہ واحد کی عبادت کا مطالبہ کیا اور یہ آیت نازل ہوئی کہ وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴿٢١٤﴾ (الشعرائ:214) یعنی اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے، تبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے نامزد کردیا تھا، چنانچہ روایت میں علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلایا اور فرمایا: اے علی! اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ تو اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرا، تو اس سے میں کچھ گھبرایا اور جان لیا کہ میں جب بھی اپنے اہل خاندان میں اس کا آغاز کروں گا مجھے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر خاموش تھے کہ جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: اے محمد! تمھارے رب نے تمھیں جس حکم پر مامور کیا ہے اگر تم اسے بجا نہیں لاتے تو وہ تمھیں عذاب سے دوچار کرے گا۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے علی ہمارے لیے ایک صاع کھانا تیار کرو اور اس پر بکری کا ایک پیر رکھ دو اور دودھ کا ایک پیالہ بھر دو، پھر میرے سامنے بنو عبدالمطلب کو اکٹھا کرو، تاکہ میں ان سے گفتگو کروں اور جس بات کو ان تک پہنچانے کا مکلف کیا گیا ہوں ان تک پہنچاؤں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو حکم دیا تھا میں نے اسے کیا، پھر بنوعبد المطلب کو آپ کے سامنے بلایا، اس وقت ان کی تعداد ایک کم یا زیادہ تقریباً چالیس تھی۔ ان میں ابوطالب، حمزہ، عباس اور ابولہب وغیرہ چچا حضرات بھی تھے، جب وہ لوگ آپ کے پاس جمع ہوگئے تو آپ نے مجھے وہ کھانا لانے کے لیے کہا جو مدعووین کے لیے میں
Flag Counter