جب تک تمام شہروں کے وفود اور ہر شہر کے باشندوں کی بیعت کی خبر نہ آجائے تب تک بیعت خلافت نہ لیجئے، پھر جب ان دونوں یعنی طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما نے جو کچھ کیا تو میں نے کہا آپ گھر میں رہیں یہاں تک کہ لوگ آپس میں صلح کرلیں تاکہ اگر فساد ہو تو آپ بدنام نہ ہوں، لیکن آپ نے میر ی ایک نہ سنی۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے عزیز! تمہارا یہ کہنا کہ ’’جس وقت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ تھا مجھے مدینہ سے باہر نکلنا چاہیے تھا۔‘‘ تو سنو! اللہ شاہد ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرح ہم بھی بلوائیوں کے محاصرہ میں تھے اور تمہارا یہ کہنا کہ جب تک دیگر شہروں کے باشندوں کی بیعت کی خبر نہ آجائے تب تک میں بیعت نہ لوں، تو سنو! معاملہ اہل مدینہ کا تھا اور انھیں ترجیح حاصل ہے، ہم اسے (خلافت) ضائع ہوتے نہیں دیکھ سکتے تھے اور طلحہ و زبیر کے نکلتے وقت تم نے جو مشورہ دیا تو اس پر عمل کرنے میں مسلمانوں کی کمزوری کا اظہار تھا۔اللہ کی قسم! میں اپنی خلافت کے اوّل دن سے پریشان ہوں، میرے کام ادھورے ہیں، کوئی مناسب کام نہیں کرسکا ہوں اور تمھارا یہ مشورہ کہ میں گھر میں بیٹھا رہتا، تو یہ بتاؤ کہ جو ذمہ داریاں مجھ پر ہیں انھیں کون نبھاتا، بتاؤ کہ مجھ سے اور کیا چاہتے ہو؟ کیا میں اس بِجّو کی طرح ہو جاؤں جو چاروں طرف سے گھیرے میں ہو اور اس کے بارے میں کہا جائے کہ یہاں نہیں ہے، پھر جب اس کی ٹانگوں کے گھٹنوں کو کاٹ دیا جائے تب وہ باہر نکلے، جب میں اپنی ذمہ داریوں کو نہیں دیکھوں گا تو کون دیکھے گا۔ اے میرے بیٹے چپ رہو۔[1] بہرحال ان مشکل اور نازک ترین حالات میں علی رضی اللہ عنہ کا موقف بالکل واضح تھا۔ کوئی شخص آپ کوآپ کے ارادہ سے پھیرنہیں سکتاتھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے ربذہ سے اپنے دوقاصدوں محمد بن ابو بکر صدیق اور محمد بن جعفر کو اہل کوفہ کے پاس بھیجا اور ان سے لڑائی میں شرکت کرنے اور مدد کرنے کی درخواست کی، لیکن وہ دونوں اپنی کوشش میں ناکام رہے، کیونکہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے گورنر ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو مطمئن کررکھا تھا اور انھیں گھر سے نکلنے اور فتنہ کے ایام میں لڑائی پر جانے سے روک رکھا تھا اور انھیں فتنہ میں شرکت کرنے سے ممانعت والی احادیث سناتے رہتے تھے۔[2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے دوسری مرتبہ ہاشم بن عتبہ بن ابی وقاص کو اپنا قاصد بناکر روانہ کیا، لیکن یہ بھی اپنے مقصد میں ناکام لوٹے، اس لیے کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اس مسئلہ میں اہل کوفہ پر کافی حد تک اثر انداز ہو چکے تھے۔[3] 3۔ذوقار پہنچ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی اہل کوفہ کو لڑائی پر چلنے کی دعوت: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ربذہ سے اپنی فوج لے کر آگے بڑھے، مدینہ سے نکلنے کے بعد آٹھ راتیں سفر میں گزار کر تقریباً (900) آدمیوں کے ساتھ ’’ذوقار‘‘ پہنچے[4]اور وہاں پڑاؤ ڈالا۔ اب کی بار آپ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |