Maktaba Wahhabi

666 - 1201
اپناقاصد بنا کر کوفہ روانہ کیا۔ لیکن لوگ اب بھی شرکت سے پیچھے ہٹتے رہے۔ پھر آپ نے ان کے پیچھے ہی عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو روانہ کیا اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو معزول کرکے قرظہ بن کعب کو ان کی جگہ پر کوفہ کا امیر بنادیا۔ [1] اہل کوفہ کو مطمئن کرنے میں قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے اہم کردار اداکیا، وہ اٹھے اور کوفہ والوں کو مخاطب کرکے کہا: میں تمہارا خیرخواہ اور تمھارے لیے مہربان ہوں، میں چاہتا ہوں کہ تم راہ راست پر رہو۔ آپ لوگوں سے جوبات کروں گا حق ہی کروں گا۔وہ بات یہ ہے کہ اوّلاً ایک امارت کی بہرحال ضرورت ہے جولوگوں کے معاملات کو منظم کرے، ظالم کا ہاتھ پکڑے اور مظلوم کو اس کا حق دلائے۔ اور یہ علی ہیں جن کے سریہ ذمہ داری سونپی گئی ہے، انھوں نے آپ لوگوں کو بلانے میں راست بازی سے کام لیاہے، وہ اصلاح کی خاطر آپ لوگوں کو بلارہے ہیں۔ لہٰذا چلو اور حقیقت حال کو دیکھو اور سنو۔[2] قعقاع رضی اللہ عنہ کے اس خطاب کا حسن بن علی رضی اللہ عنہما پر گہرا اثر پڑا اور وہ بھی لوگوں کو خطاب کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! اپنے امیر کی بات مان لو۔ اپنے بھائیوں سے چل کر ملو، وہاں کوئی ضرور ملے گا جو اس معاملہ کو حل کردے۔ا للہ کی قسم! اگر اس معاملہ کو اہل بصیرت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں، تو دنیا کے لیے ایک نمونہ ہوگا اور آخرت میں بھی اس کا انجام بہتر ہوگا۔ ہماری باتوں کو مان لو اور جس مصیبت میں ہم سب لوگ گرفتار ہیں، اس سے نجات کے لیے ہماری مدد کرو۔[3] ان دونوں خطاب کے بعد کوفہ کی اکثریت نے ان کی دعوت پر لبیک کہ دیا اور چھ سے سات ہزار کے درمیان لوگ عمار و حسن رضی اللہ عنہما کے ساتھ علی رضی اللہ عنہ کے پاس جانے کو تیار ہوگئے، پھر بصرہ سے قبیلۂ عبدالقیس کے بھی دوہزار لوگ آملے، اس طرح مختلف شہروں سے قبائل کی آمدکا ایک سلسلہ جاری ہوگیا اور لڑائی کا سانحہ پیش آتے آتے آپ کی فوج کی تعداد تقریباً بارہ ہزار (12000) تک پہنچ گئی۔[4] جب ذوقار میں اہل کوفہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ آملے تو آپ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’اے کوفہ کے لوگو! تمہیں عجم اور وہاں کے بادشاہوں کی شان وشوکت عطاکی گئی ہے۔ تم نے عجم کی قوتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ یہاں تک کہ تم ان کے وارث بنے، تم نے لوگوں کو اپنی حفاظت سے بے بہرا بنادیا اور دوسرے لوگوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد دی، میں نے تمھیں اس لیے بلایا ہے تاکہ تم ہمارے ساتھ ہمارے بصرہ والے بھائیوں کے پاس چلو۔ اگروہ اپنی بات سے رجوع کریں توہمارا مقصد بھی یہی ہے اور اگر وہ ہماری بات سے انحراف کریں تو اوّلاً اس کا نرمی سے علاج کریں اور ان پر اصل حقیقت ظاہر کردیں۔ہم اس وقت تک کوئی دست درازی نہ کریں گے جب تک وہ ہم پر ظلم نہ کریں اور اصلاح کے جتنے بھی طریقے ممکن ہوں گے ہم ان سب کو اختیار کریں گے اور ان شاء اللہ فساد سے احتراز کریں گے۔ اللہ کے
Flag Counter