Maktaba Wahhabi

211 - 1201
((إِنَّ ہٰذِہِ أَیَّامُ أَکْلٍ وَشُرْبٍ فَلَا یَصُوْمُہَا أَحَدٌ، وَاتَّبَعَ النَّاسَ عَلَی جَمَلَِہِ یَصْرَخُ بِذٰلِکَ ۔))[1] ’’یہ (ایام منیٰ) کھانے پینے کے ایام ہیں ان میں کوئی روزہ نہ رکھے آپ اپنے اونٹ پر سوار لوگوں کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور وہ بلند آواز سے اس کااعلان کررہے تھے۔ ‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہلانے اور دفن کرنے کا شرف سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے حق میں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دلانے میں فضل بن عباس اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم وغیرہ کے ساتھ جنابِ علی رضی اللہ عنہ بھی شریک رہے۔[2]علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا، دیکھنے لگا کہ شاید میت کو موت کے وقت بسا اوقات جونجاست وغیرہ نکل آتی ہے، آپ کو بھی ہو، لیکن میں نے کچھ نہ دیکھا، آپ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں پاک صاف تھے[3] اور فرمایا: ’’اے پاک ذات! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں، آپ زندگی اور موت دونوں حالتوں میں پاکیزہ رہے۔‘‘[4] آپ ان لوگوں میں سے ایک تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے لیے آپ کی قبر میں اترے، اس میں شرکت کرنے والوں میں آپ کے علاوہ فضل بن عباس، قثم بن عباس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام شقران رضی اللہ عنہم بھی تھے۔[5] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر صحابہ کرام پر بجلی بن کر گری، یہ حضرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن رحمت سے وابستہ اور دل سے شیداوفریفتہ تھے، وہ آپ کی آغوش تربیت میں اس طرح رہے جیسے شفیق باپ کی آغوش میں اس کے بچے ہوں بلکہ اس سے بھی زیادہ ان پر قیامت گزر گئی، قدرتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا غم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت، خاندان ہاشمی خصوصاً سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اورعلی رضی اللہ عنہ پر سب سے زیادہ تھا یہ قانون قدرت اور فطرت سلیم کاتقاضا تھا، پھر رشتہ کا قرب، دل کی نرمی اور گداز احساسات کی نزاکت اور محبت کا وفور مستزاد، لیکن انھوں نے اس جاں گداز حادثہ کو اللہ داد قوت ایمانی اور تسلیم ورضا کے اس جذبہ سے جو تربیت نبوی کا فیض اور ان کا خاندانی شعارتھا، برداشت کیا۔ [6] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرض الموت میں جو وصیت نامہ لکھوانے کا ارادہ کیا تھا اس کی حقیقت: سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہوا تو گھرمیں بہت سے صحابہ کرام موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((ہَلُمُّوْا أَکْتُبُ لَکُمْ کِتَاباً لَا تَضِلُّوْا بَعْدَہُ)) ’’لاؤ میں تمھارے لیے ایک دستاویز لکھ دوں، اگر تم اس پر چلتے رہے تو پھر تم گمراہ نہ ہوسکو گے۔‘‘ اس پر بعض لوگوں
Flag Counter