پر قابو پائے بغیر کوئی اقدام کرنا ممکن نہیں ہے، یہ فتنہ آگ کی چنگاری ہے، جیسے جیسے اس کی آگ بھڑکائی جائے گی وہ زیادہ ہی ہوگی۔[1] جب طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہما اور ان دونوں کے موافقین نے دیکھا کہ شہادت عثمان پر چار مہینہ گزر گئے، اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر قصاص نافذ کرنے میں علی رضی اللہ عنہ اب تک کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس کافی قوت و طاقت تھی اوروہ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں گھس چکے تھے، تو ان دونوں نے علی رضی اللہ عنہ سے کہا: ہمیں مدینہ سے نکل جانے کی اجازت دے دیں یا تو آپ حالات قابو میں لائیں یا ہمیں چھوڑ دیں۔ آپ نے کہا: جب تک کنٹرول کرسکوں گا کروں گا اور جب کوئی چارہ کار نہ ر ہے گا تو آخری علاج ’’کیّ‘‘ (آگ سے داغنا) ہی ہے۔ [2]علی رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ ان دونوں کے مدینہ چھوڑنے کا مقصد کسی حل تک پہنچنے کی ایک کوشش ہے۔ اس لیے آپ نے ان دونوں کو منع نہیں کیا۔ غالباً آپ کی بھی تمنا تھی کہ شاید کوئی بہتر حل نکل ہی آئے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ اسی کے لیے کوشاں بھی تھے لیکن اپنے مخصوص طریقہ سے اسے حل کرنا چاہتے تھے۔[3] بعض معاصر محققین نے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی بصرہ وکوفہ جانے کی اجازت طلبی اور وہاں سے شہ سواروں کو لاکر شرپسندوں کی سرکوبی اور علی رضی اللہ عنہ کی عدم موافقت کو غلط معنوں پر محمول کیا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ ان دونوں سے ڈر گئے اور آپ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ دونوں آپ کے خلاف ایک نئے فتنہ کی شکل میں نہ لوٹیں اور وہی کچھ کرگزریں جو مصر والوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا تھا اور وہی دن نہ لوٹ آئے جو عثمان کے ساتھ ان کے گھر میں ہواتھا۔[4] درحقیقت طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کی اجازت طلبی اور علی رضی اللہ عنہ کی عدم موافقت کی یہ تشریح ایک بے جا اور بے بنیاد تشریح ہے[5] اور مقدس صحابہ کرام کے حق میں ظلم ہے۔ بہرحال زبیر اور طلحہ رضی اللہ عنہما مکہ گئے اور وہاں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص کا مطالبہ کرنے والے بے شمار مسلمان ان سے آملے، پھر آگے جو کچھ ہوا اس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آرہی ہے۔ 3 معاویہ بن ابي سفیان رضی اللہ عنہما : قدیم وجدید دونوں ادوار میں لوگوں کے در میان یہ بات مشہور ہے کہ معاویہ اور علی رضی اللہ عنہما کے درمیان اختلاف کا سبب یہ تھا کہ معاویہ خلافت کے خواہاں تھے اور آپ نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت نہ کر کے ان کی مخالفت اس لیے کی کہ انھوں نے آپ کو شام کی گورنری سے معزول کردیا تھا۔ چنانچہ ابن قتیبہ الدینوری [6] کی طرف منسوب کی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |