اسے خو ب معلوم تھا کہ ان بدوؤں کی زندگی میں کون سی جگہیں حساس ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں۔ [1] قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کے لیے طریقہ کار میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اختلاف: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ ، اورطلحہ، زبیر و عائشہ رضی اللہ عنہم کے درمیان دو فریق کی حیثیت سے جو اختلاف ابھرا اور پھر علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جو محاذآرائی ہوئی اس کا سبب یہ نہ تھا کہ ان لوگوں کو امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ کی خلافت و امامت یا استحقاق خلافت اور مسلمانوں کا حاکم ہونے پر اعتراض تھا۔ بلکہ آپ کی خلافت پر وہ سب متفق تھے جیسا کہ حافظ ابن حزم اندلسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت اور استحقاق خلافت کا کبھی انکار نہ کیا، بس آپ سے غلطی صرف اتنی ہوئی کہ آپ کے اجتہاد نے آپ کو اس نتیجہ پر پہنچایا کہ قاتلینِ عثمان سے قصاص بیعتِ خلافت سے پہلے لی جائے اور یہ کہ عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے وہ زیادہ حق دار ہیں۔ ‘‘[2] اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ معاویہ رضی اللہ عنہ نے خلافت کا دعویٰ نہ کیا اور جس وقت وہ علی رضی اللہ عنہ سے برسرپیکار تھے خلافت کے لیے ان کے ہاتھ پر بیعت نہ کی گئی اور نہ خود کو خلیفہ یا خلیفہ کاحق دار سمجھ کر قتال کیا، بلکہ یہ سب لوگ علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کو تسلیم کرتے تھے۔ اگر کوئی اس سلسلہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ سے گفتگو کرتا تو معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت کا اقرار کرتے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا یہ کبھی خیال نہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں سے جنگ کا آغا ز ان کی طرف سے ہو اور نہ ہی ایسا کیا۔ ‘‘[3] مزید فرماتے ہیں: ’’فریقین عثمانی و علوی سب ہی اس بات کے اقراری تھے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کے ہم پلہ نہیں ہیں اور علی رضی اللہ عنہ کا استخلاف ممکن ہوتے ہوئے معاویہ خلیفہ نہیں ہوسکتے، اس لیے کہ جس طرح آپ کے پیشرو خلفاء ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی اللہ عنہم کی فضیلت ان کے درمیان معلوم و مشہور تھی اسی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کے بالمقابل علی رضی اللہ عنہ کی افضلیت، علم، دین، شجاعت، دین کی طرف پیش قدمی اور دیگر فضائل ان سب کے نزدیک معروف ومشہور تھے۔‘‘ [4] بلاشبہ اختلاف کی بنیاد یہ کبھی نہ تھی کہ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر کسی کو اعتراض تھا، بلکہ قاتلین عثمان سے قصاص لینے کا معاملہ اصل محل اختلاف تھا اور اس میں بھی قصاص لینے پر کوئی اختلاف نہ تھا بلکہ اس کی نوعیت وکیفیت میں اختلاف تھا کہ کس طرح اس معاملہ کو حل کیاجائے۔ علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان سے قصاص لینے کے وجوب کے قائل تھے لیکن آپ کی رائے تھی کہ اس مسئلہ کو اس وقت تک کے لیے مؤخر کردیا جائے جب تک ملکی حالات |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |