گے اللہ کی قسم! وہ جس پر قسم کھالیتے ہیں اسے ضرور کر گزر تے ہیں، اس لیے لوٹ جاؤ، میرے پاس نہ آؤ، چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا، اور جب ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کی بیعت مکمل ہوگئی تب واپس آئے۔ [1] اس قصہ کا آخری حصہ عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، اور روافض کا یہ دعویٰ کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو نذر آتش کر نے کی دھمکی دی تھی، بالکل غلط اور جھوٹ ہے، اس واقعہ کو شیعہ مؤرخ طبرسی نے جابر جعفی کی روایت سے اپنی کتاب ’’دلائل الإمامۃ‘‘ میں اسے مزید ملمع سازی سے پیش کیاہے۔ [2]اور جابر جعفی ائمہ محدثین کے نزدیک بالاتفاق کذاب رافضی ہے۔[3] اور بعض رافضیوں نے یہاں تک جھوٹ گھڑدیا ہے کہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اتنی زور سے مارا کہ محسن ان کے پیٹ سے ساقط ہوگئے۔ درحقیقت یہ سب روافض کی کذب بیانیاں ہیں جن کا صحت سے کوئی تعلق نہیں، سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو متہم کرنے میں یہ بھول گئے کہ ہم علی رضی اللہ عنہ کو بھی بزدلی اور ظلم پر خاموشی سے متہم کررہے ہیں جب کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہادر صحابہ میں سے تھے۔ [4] بلکہ خود روافض ہی کی بعض کتب اس جھوٹ اور بکواس کی تردید کرتی ہیں۔[5] صحیح بات تو یہ ہے کہ محسن کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زندگی میں ہی ہوگئی تھی، جیسا کے صحیح روایات سے معلوم ہوتاہے۔ 10۔ عباس اور علی رضی اللہ عنہما کا جھگڑا اور عمر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ: مالک بن اوس کا بیان ہے کہ میں ٹھیک دوپہر کے وقت اپنے گھروالوں کے ساتھ بیٹھا تھا، اس وقت عمر رضی اللہ عنہ کا فرستادہ آیا اور کہا کہ آپ کو امیرالمومنین نے بلایا ہے، میں اس کے ساتھ چل کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، دیکھا تو آپ چارپائی کے سرہانے بیٹھے ہوئے تھے اس پرکوئی بستر وغیرہ نہ تھا، چمڑے کے تکیہ پر ٹیک لگائے تھے، میں سلام کرکے آپ کے پاس بیٹھ گیا، آپ نے کہا: اے مالک! میرے پاس تمھارے گھرانے کے لوگ آئے ہیں، میں نے انھیں کچھ مال دینے کے لیے کہا ہے، لہٰذا تم مال لے کر ان میں تقسیم کردو، میں نے کہا: اے امیرالمومنین اگر میری جگہ دوسرے کو اس کام کے لیے مکلف کردیں تو بہتر ہوگا، آپ نے کہا: اے اللہ کے بندے اسے لو، اور تقسیم کرو۔ اتنے میں آپ کا دربان ’’یرفا‘‘ آپہنچا اور کہا کہ عثمان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں، کیا انھیں اجازت دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، ہاں آنے دو، سب اندر آئے، سلام کیا اور بیٹھ گئے، یرفاء بھی تھوڑی دیر بیٹھا، پھرکہنے لگا کہ! علی اور عباس بھی ملنا چاہتے ہیں، کیا انھیں بھی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں! آنے دو، وہ دونوں اندر آئے، سلام کیا اور بیٹھ گئے، عباس نے کہا: اے امیرالمومنین! میرے اور ان (علی) کے درمیان فیصلہ کردیجئے، دراصل ان دونوں کا جھگڑا اس مال فے کے لیے تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو نضیر سے ملا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |