’’اس کو کھا لو، اللہ نے تمھیں یہ رزق بہم پہنچایا ہے۔‘‘ شعبی سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کیا تو میرے یا ان کے پاس ایک مینڈھے کی کھال کے سوا کوئی بستر نہ تھا، اسی پر رات کو سوتے اور اسی میں دن کو اپنی پانی لانے والی اونٹنی کو چارہ دیتے اس کے علاوہ اور ہمارے یہاں کوئی خادم نہ تھا۔ [1] مجاہد سے روایت ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک مرتبہ مدینہ میں مجھے سخت بھوک لگی، میں کام کی تلاش میں عوالی مدینہ کی طرف گیا، وہاں مجھے ایک عورت ملی، جو کچھ خشک مٹی اکٹھا کیے ہوئے تھی، میں نے سوچا کہ شاید وہ اسے بھگونا چاہتی ہے، چنانچہ میں اس کے پاس آیا اور مزدوری طے کر لی کہ وہ مجھے ہر ڈول کے بدلے ایک کھجور اجرت دے گی۔ چنانچہ میں نے سولہ (16) ڈول پانی وہاں پہنچایا، جس سے میرے دونوں ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے، پھر میں چشمہ پرآیا اور پانی پیا، پھر اس عورت کے پاس گیا، اجرت لینے کے لیے اس کے سامنے اس طرح ہاتھ بڑھایا، اس نے مجھے سولہ (16) کھجوریں عطا کیں، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور واقعہ کی روداد سنائی، پھر آپ نے بھی میرے ساتھ اس میں سے کھایا۔[2] ٭ اس واقعہ میں اس تنگ دستی و افلاس کی تصویر کشی ہے جس سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مدینہ میں گزر رہے تھے، اس میں ہمارے لیے عبرت ہے کہ مشکلات و مصائب کے وقت بھی جائز راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے، جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ جائز کمائی کی خاطر اپنے دونوں ہاتھوں سے کام کرنے کے لیے گھر سے باہر گئے، آپ اس انتظار میں نہیں بیٹھے رہے کہ کوئی خیرات دینے والا آئے گا اور اس سے میرا کام چل جائے گا۔ ٭ دوسری بات یہ کہ علی رضی اللہ عنہ نے متحمل مزاجی کا ثبوت دیا، بایں طور کہ آپ سخت بھوک سے دوچار ہیں، جس سے جسم لاغر ہوا جارہاہے، پھر بھی پرمشقت کام کو خود ہی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ٭ تیسری بات یہ کہ اپنے احباب و اقرباء کے لیے بڑے ایثار و قربانی اور وفاداری کا ثبوت دیا، چنانچہ باوجوداس کے آپ کو سخت بھوک لگی تھی اور اس پر مزید یہ کہ ایک پُرمشقت کام کیا تھا، پھر بھی آپ نے کھجور کی شکل میں اجرت پانے کے بعد اسے محفوظ رکھا اور لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورآپ کے ساتھ اسے کھایا۔[3] 5۔ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا زہد و قناعت اور صبر : آپ کی زندگی تکلّفات سے پاک اور نہایت سادہ تھی، خوشحالی کی بہ نسبت تنگ دستی زیادہ تھی۔ آئندہ سطور میں جو واقعہ تحریر کیا جارہا ہے، وہ ہمارے سامنے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تھکاوٹ اور خادم کے مطالبہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے موقف کی بخوبی عکاسی کرتاہے۔ واقعہ یوں ہے کہ ایک دن علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا: میں پانی لاتے لاتے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |