Maktaba Wahhabi

255 - 263
لکن لا یستحق العبادة[1] یہ دونوں صفتیں دعویٰ توحید پر بطور دلیل لائی گئی ہیں۔ کیونکہ رحمن تو وہ ہے جس نے ہمیں دنیوی انعامات سے مالا مال فرمایا ہے۔ اور رحیم وہ ہے جو آخرت میں ہم پر اپنی رحمت خاصہ کے دروازے کھولے گا۔ جب دنیا وآخرت میں وہی ہمارا ولی نعمت اور محسن ومربی ہے اور باقی ساری کائنات ارضی وسماوی اور مخلوقات نوری وناری اور خاکی سب اس کی محتاج ودست نگر ہے تو وہی رحمن ورحیم ہی ہر قسم کی عبادت کا مستحق ہے۔ اس کے سوا کوئی علوی یا سفلی، ارضی یا سماوی، نوری، ناری یا خاکی عبادت کا مستحق نہیں۔ نہ پکارنے کے لائق نہ نذرومنت کے۔ یہاں تک تو دعویٰ توحید کا اعادہ تھا۔ آگے اس کے اثبات کے لیے عقلی دلیل بیان کی گئی ہے جو مختلف سات دلیلوں پر مشتمل ہے۔([2]) سورۃالبقرۃ:164 کی تفسیر میں مولانا الوانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اِنّ حرف مشبہ بالفعل ہے۔ اور فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ معہ معطوفات اِنَّ کی خبر ہے۔ زمین و آسمان کا پیدا کرنا اور نہ صرف ان کی ذوات کو بلکہ ان کے دیگر متعلقات کو اور پھر فضائے آسمانی اور بطن ارضی میں بے بہا خزانوں کو پیدا کرنا یہ اس کی توحید کی پہلی عقلی دلیل ہے۔ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ۔ یعنی رات دن کی آمدورفت، روشنی اور تاریکی میں، کمی اور زیادتی میں ان کا یہ اختلاف یہ دوسری دلیل ہے۔ تیسری دلیل۔ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ۔ یہ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ پر معطوف ہے۔ لفظ فلک مفرد وجمع دونوں طرح استمعال ہوتا ہے۔ یہاں بطور جمع استعمال ہوا ہے۔ بِمَا میں مَا مصدریہ ہے یا ما موصولہ۔ یعنی جو بحری جہاز سمندروں میں مال تجارت لے کر نقل وحرکت کرتے ہیں، یہ بھی خدا کی قدرت کاملہ کی دلیل ہے۔ چوتھی دلیل وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ۔ الفلک پر معطوف ہے۔ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا آسمانوں سے بارش کا اتارنا، پھر اس کے ذریعے خشک اور بنجر زمین کو سرسبز اور شاداب کرنا اور اس میں ہر قسم کی سبزیاں، غلے، پھل پھول اور جڑی بوٹیاں پیدا کرنا یہ سب اس کی وحدانیت کے منہ بولتے دلائل ہیں۔ پانچویں دلیل وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ یہ اَنزل پر معطوف ہے۔ یعنی ہر قسم کے چوپائے اور جانور زمین میں پھیلا دئیے۔ چھٹی دلیل۔ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ یہ مَااَنْزَلَ پر معطوف ہے۔ اور تصریف الریاح سے ہواؤں کا مختلف سمتوں سے چلنا اور مختلف اوصاف سے متصف ہونا مثلاً سرد، گرم، تیز اور آہستہ وغیرہ۔ ساتویں دلیل وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ۔ بادل کے زمین و آسمان کے درمیان مسخر اور تابع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ تو زمین پر اتر آتا ہے اور نہ آسمانوں میں اتنی بلندی پر چلا جاتا ہے جہاں ہمارے لیے اس میں کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ وہ فضا میں معلق رہتا ہے اور خدا کے حکم سے ہوائیں اسے ادھر ادھر لیے پھرتی
Flag Counter