بنانے کے لیے سوچ رہے رہو؟ انصاری نے چند مہاجرین کا نام لیا اور علی رضی اللہ عنہ کا نام نہیں لیا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: علی کے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ اللہ کی قسم! اگر تم لوگ انھیں خلیفہ بنادو تو وہ تمھیں حق پر کھڑا رکھیں گے، اگرچہ تم اسے نا پسند کرو۔ [1] اور اپنے اوپر قاتلانہ حملہ کے بعد اپنے بیٹے عبداللہ بن عمر سے کہا: اگر لوگوں نے لمبی زلفوں والے (یعنی علی رضی اللہ عنہ ) کو خلافت سونپ دی تو انھیں سیدھے راستہ پر رکھے گا۔ [2] 3۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کئی مرتبہ علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر کیا: الف:… جنگ قادسیہ سے پہلے چشمۂ ’’صرائ‘‘ جاتے ہوئے: جنگ قادسیہ سے کچھ پہلے اہل فارس مسلمانوں کے صفایا کے لیے ’’صرائ‘‘ نامی چشمہ کے پاس جمع ہو چکے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کیا اور مشورہ لیا، سب نے پیش قدمی کرنے کا مشورہ دیا، آپ نے اس موقع پر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں نائب مقرر کیا اور خود اسلامی فوج کی قیادت کرتے ہوئے صراء چشمہ پر پہنچے۔ [3] ب:…جابیہ جاتے ہوئے: جب عمر وبن عاص رضی اللہ عنہ اسلامی فوج لے کر اجنادین پہنچے، تو روم کے ارطبون نے آپ کے نام خط لکھا کہ واللہ، اجنادین کے بعد اب فلسطین کا کوئی علاقہ تم فتح نہیں کرسکتے، لوٹ جاؤ، دھوکہ میں نہ رہو فلسطین کے اصل فاتح کا نام تین حرفوں پر مشتمل ہے عمرو بن عاص نے فوراً جان لیا کہ اس سے عمر رضی اللہ عنہ مراد ہیں، چنانچہ آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کو خط کے ذریعہ سے اطلاع دی کہ فتح آپ کی منتظر ہے۔ آپ نے اس کے لیے لوگوں کو اکٹھا کیا، اور مدینہ پر علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا۔ [4] ج:…ازواج مطہرات رضي اللہ عنہن کو لے کر حج کو جاتے ہوئے: یہ واقعہ 23 ھ کا ہے، جس میں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کا آخری حج کیا تھا، بحیثیت امیرالمومنین آپ لوگوں کے ساتھ تھے اور ازواج مطہرات بھی اپنے محرم اولیاء کے ساتھ اس حج میں شریک تھیں۔ اس موقع پر آپ نے مدینہ پر علی رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر کیا تھا۔[5] جہاد اور دیگر ملکی امور میں عمر رضی اللہ عنہ کا علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لینا: یہ بات پہلے بھی گزرچکی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ عمر رضی اللہ عنہ کے اوّل اور ممتاز مشیر تھے، ہر چھوٹے بڑے معاملات میں عمر رضی اللہ عنہ آپ سے مشورہ لیتے تھے، چنانچہ فتح بیت المقدس، فتح مدائن، نہاوند جاکر فارسیوں سے معرکہ آرائی اور رومیوں سے جنگ نیز مسلمانوں کے قومی سن کی ابتداء کی تعیین جیسے متعدد مواقع پر آپ نے علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا۔[6] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |