صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر ہم عمل کیوں کریں، کیا ہم اسی تقدیر پر بھروسہ نہ کرلیں، آپ نے فرمایا: ((لَا اِعْمَلُوْا، فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ۔)) ’’نہیں ایسا نہ کرو بلکہ عمل کرو، ہر انسان کے لیے اس کی تقدیر کے مطابق عمل کو آسان کردیا گیا ہے۔‘‘ پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَاتَّقَىٰ ﴿٥﴾ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَىٰ ﴿٦﴾ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَىٰ ﴿٧﴾ وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَىٰ ﴿٨﴾ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَىٰ ﴿٩﴾ فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَىٰ ﴿١٠﴾ (اللیل:5-10)[1] ’’پس لیکن وہ جس نے دیا اور ( نافرمانی سے) بچا۔ اور اس نے سب سے اچھی بات کو سچ مانا۔تو یقینا ہم اسے آسان راستہ کے لیے سہولت دیں گے۔ اور لیکن وہ جس نے بخل کیا اور بے پروا ہوا۔اور اس نے سب سے اچھی بات کو جھٹلا دیا۔ تو یقینا ہم اسے مشکل راستہ کے لیے سہولت دیں گے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان احادیث میں قرآن کی اس تعلیم کو ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی نیک بختی اور بدبختی کا علم ازل سے ہے اور اس نے اسے لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے، پھر اپنی مرضی و مشیت کے مطابق اس کے وجود کا فیصلہ کرتا ہے، صرف سعادت و شقاوت ہی نہیں بلکہ بندوں کے دیگر احوال کا بھی اسے علم ہے اور انھیں لوح محفوظ میں لکھ چکا ہے۔[2] اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کردیا کہ تقدیر کا لکھا جانا ان کے اعمال کے منافی نہیں ہے کہ جن سے سعادت یا شقاوت انسان کا مقدر بنتی ہے، بلکہ جو شخص سعادت مندوں میں سے ہوتاہے، اس کے لیے سعادت مندوں کے کام آسان کردیے جاتے ہیں اور جو شخص بدبختوں میں سے ہوتا ہے اس کے لیے بدبختی کے کام آسان کردیے جاتے ہیں، اسی لیے آپ نے لوگوں کو نوشۂ تقدیر پر بھروسہ کرنے اور عمل چھوڑ کر بیٹھ جانے سے منع کیا، چنانچہ جو شخص نوشۂ تقدیر پر بھروسہ کرکے اپنے فرائض سے پہلو تہی اختیار کرتا ہے وہ خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا، جنھو ں نے اپنی ساری تگ و دو دنیوی زندگی میں لگائی اور سب بیکار گئی، تقدیر پر بھروسہ کرکے اپنے فرائض سے پہلو تہی کرنا بھی درحقیقت اسی تقدیر کا حصہ ہے، جس کے مطابق ایسے شخص کے لیے بدبختی کے کام آسان کردیے گئے ہیں، پس سعادت مند وہ لوگ ہیں جو منہیات سے بچتے ہیں اور اوامر کو بجالاتے ہیں اور جو لوگ تقدیر پر بھروسہ کرکے آرام کرتے ہیں اور دینی فرائض کو چھوڑتے ہیں وہ بلاشبہ بدبختوں میں سے ہیں، ان کے لیے بدبختی کے اعمال آسان کردیے گئے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو جو جواب دیا اور انھوں نے نیز دیگر صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقدیر کے سلسلہ میں جو تعلیم پائی وہ بالکل برحق ہے اور حق و صداقت پر مبنی ہے۔[3] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |