Maktaba Wahhabi

533 - 1201
معاویہ اور قیس رضی اللہ عنہما کے مراسلات کے حوالہ سے کئی ایک رافضی روایات ہیں، جنھیں ابومخنف نے تاریخی کتب میں ذکر کیا ہے، حالانکہ وہ روایات یکسر باطل ہیں، تنہا یہی رافضی ان روایات کا ناقل ہے اور اسے جملہ ائمہ جرح و تعدیل نے متفقہ طور سے ضعیف قرار دیا ہے، ان روایات میں متعدد عجائب و غرائب ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہیں: رافضی روایات کا خلاصہ 1۔ مکتوب علی میں خرد برد: رافضی روایت بتاتی ہے کہ اہل مصر کے نام علی رضی اللہ عنہ کے مکتوب میں تحریر تھا: ’’…پھر ان دونوں یعنی (ابوبکر و عمر) کے بعد ایسا والی آیا جس نے کئی من مانے کام کیے، جس کی وجہ سے امت اس پر ناراض ہوگئی، لوگوں نے برا بھلا کہا اور پھر بطور سزا اسے بدل دیا۔‘‘ اس روایت کا مطلب یہ ہوا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف جو ہجوم اٹھ کھڑا ہوا تھا وہ امت کے افراد تھے اور امت کے ان افراد نے اس برائی کو عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کے ذریعہ سے ختم کیا، جب کہ فی الواقع علی رضی اللہ عنہ ایسی تحریر اور ایسی بات سے بالکل بَری الذمہ ہیں۔ آپ اوّل سے آخر تک یہی جانتے رہے کہ قاتلین عثمان بدقماش اور اوباش لوگ ہیں اور عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل ناحق ہوا ہے۔ علی رضی اللہ عنہ کے متعدد اقوال اس بات کی تائید بھی کرتے ہیں، چنانچہ ابن عساکر کی روایت ہے کہ محمد بن الحنفیہ نے کہا: میں نے علی رضی اللہ عنہ کی زبان سے عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر کبھی برے انداز میں نہیں سنا۔[1] حاکم اور ابن عساکر رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے اللہ میں تیرے نزدیک عثمان کے خون سے برأت کا اظہار کرتاہوں، جس دن عثمان کی شہادت ہوئی میں حواس باختہ ہوگیا، میرے نفس نے ملامت کی، وہ سب مجھ سے بیعت کرنے آئے تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں ایسے لوگوں کی بیعت لوں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ممدوح کو قتل کیا ہے، ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ((أَ لَا أَسْتَحِی مِمَّنْ تَسْتَحِیْ مِنْہُ الْمَلَائِکَۃُ۔)) ’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے حیا کرتے ہوں۔‘‘ یقینا مجھے بیعت لیتے ہوئے حیا آرہی ہے، اس وقت عثمان زمین پر مقتول پڑے تھے، ابھی ان کی تدفین نہ ہوئی تھی اس لیے وہ سب لوٹ گئے اور جب ان کی تدفین مکمل ہوگئی تو لوگ میرے پاس آئے اور مجھ سے بیعت کا مطالبہ کرنے لگے، میں نے کہا: باخدا! اس پر اقدام کرتے ہوئے میں ڈر رہا ہوں، لیکن پھر عزیمت نے سنبھالا دیا اور میں بیعت کے لیے راضی ہوگیا، پھر جب انھوں نے مجھے ’’امیر المومنین‘‘ کہہ کر پکارا تومجھے ایسا لگا گویا کہ میرا دل پھٹ گیا اور عبرت سے بھرگیا۔[2] اس معنی میں آپ کے دیگر کئی اقوال بھی ہیں۔[3] انھیں میں نے اپنی کتاب
Flag Counter