Maktaba Wahhabi

311 - 1201
کی امامت وخلافت سونپنے کے متقاضی تھے۔[1] اس کے باوجود آپ کی خلافت اسی وقت صحیح تسلیم کی گئی جب مہاجرین اور انصار نے آپ کی بیعت پر اجماع کرلیا اور اس میں عملاً پیش پیش رہے۔ خلافت علی رضی اللہ عنہ پر امت کا اجماع: سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مہاجرین و انصار کے ہاں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے افضل کوئی نہ تھا اس لیے کہ آپ ابتداء ہی میں اسلام لانے والوں میں سے تھے، علم میں کامل تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین نسبی رشتہ دار تھے، بہادر و خوددار تھے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے تھے، خوبیوں میں فائق، سبقت إلی الخیر میں افضل، درجات میں بلند، عالی نسب اور سیرت و کردار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ دار تھے، تو سب کی نظریں خلافت کے لیے انھیں کی طرف گئیں اور سب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی، پھر ان کے علاوہ جو صحابۂ کرام مدینہ میں بستے تھے، انھوں نے بھی بالاتفاق آپ کے ہاتھوں پر بیعت خلافت کی۔ اسی اجماع صحابہ کے پیش نظر اہل سنت و جماعت کا بھی اجماع ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد آپ ہی خلافت کے مستحق تھے اور شرعی خلیفہ ہونے کی حیثیت سے آپ کی اطاعت تمام مسلمانوں پر واجب ہوگئی اور ان سے بغاوت کرنا یا انھیں مخالفت و تنقید کا نشانہ بنانا حرام قرار پایا۔ خلافتِ علی رضی اللہ عنہ پر اجماع امت کے ناقلین: 1: امام محمد بن سعد نے مہاجرین و انصار کے ساتھ ساتھ مدینہ میں سکونت کرنے والے دیگر بزرگ و ممتاز اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خلافتِ علی رضی اللہ عنہ پر اجماع نقل کیا ہے۔آپ فرماتے ہیں: ’’عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دوسرے دن مدینہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت خلافت ہوئی۔طلحہ، زبیر، سعد بن ابی وقاص، سعید بن زید بن عمرو بن نفیل، عمار بن یاسر، اسامہ بن زید، سہل بن حنیف، ابوایوب انصاری، محمد بن مسلمہ، زید بن ثابت، خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہم اور ان تمام صحابہ وغیر صحابہ نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کی جو اس وقت مدینہ میں موجود تھے۔‘‘ [2] 2: ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’امام احمد ابن حنبل نے اپنی سند سے عبدالرزاق سے، انھوں نے محمد بن راشد سے اور انھوں نے عوف سے روایت کی ہے کہ میں حسن کی مجلس میں بیٹھا تھا، میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ پر معترض تھا کہ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ کا اتباع کیوں کیا؟ حسن رضی اللہ عنہ یہ سن کر غصہ ہوگئے، اور کہا: سبحان اللہ! جب امیر المومنین عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے اور وہاں موجود لوگوں نے اپنے سب سے بہتر آدمی پر اتفاق کرکے اس کی خلافت پر بیعت کرلی تو کیا برا کیا؟ کیا علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کی وجہ سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ملامت کیے جائیں گے؟‘‘[3]
Flag Counter