Maktaba Wahhabi

300 - 1201
اے علی! ہمارے علم میں اب آپ کے علاوہ کوئی دوسرا اس کا مستحق اور اس کے لائق نہیں ہے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو جواب دیا: مجھے امارت کے لیے مت منتخب کرو، میں تمھارے لیے وزیر ہوں، یہ امیر ہونے سے میرے لیے بہتر ہے۔ لیکن ان لوگوں نے پھر اصرار کیا، اور کہا: نہیں، ہم آپ سے زیادہ کسی کو اس کا مستحق ہی نہیں جانتے، آپ جب لاچار ہوگئے، تو کہا: ٹھیک ہے اگر آپ لوگ میرے لیے ہی اصرار کررہے ہو تو میری بیعت خفیہ نہ ہوگی، اس لیے سب لوگ مسجد میں تشریف لے چلو، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہاں لوگوں نے آپ سے بیعت خلافت کی۔ [1] سالم بن جعد کی دوسری روایت میں محمد بن الحنفیہ اسی واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے وہ تو شہید کردیے گئے اور لوگوں کے لیے کسی امام کا ہونا ضر وری ہے اورہم آپ سے زیادہ کسی کو اس کا مستحق نہیں پاتے ہیں جو معرکوں کا تجربہ رکھتا ہو اور نہ ہی آپ سے بڑھ کرکسی کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت ہے، لہٰذا آپ اسے قبول کرلیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا نہ کرو، میں وزیر رہوں یہ میرے لیے امیر ہونے سے بہتر ہے۔ ان لوگوں نے کہا: نہیں ہرگز نہیں۔ واللہ! ہم بیعت آپ ہی کی خلافت پر کریں گے۔ آپ نے فرمایا: اگر بضد ہی ہو تو چلو مسجد میں چلو، مناسب یہ ہے کہ میری بیعت بر سرعام اور تمام مسلمانوں کی رضا مندی سے ہو، خفیہ نہ ہو۔ سالم بن ابی جعد کا کہنا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: مجھ کو یہ بات ناگوار گزری کہ وہ مسجد میں بیعت کے لیے جائیں، محض اس وجہ سے کہ مباداً آپ کے خلاف شور و ہنگا مہ نہ اٹھ کھڑا ہو، لیکن علی رضی اللہ عنہ مسجدمیں چلنے کے لیے بضد رہے اور جب مسجد میں گئے تو پہلے مہاجرین وانصار آئے اور بیعت کی، پھر باقی سب لوگوں نے بیعت کیا۔ [2] درس و عبرت اور فوائد: ان مستند وصحیح روایات کی روشنی میں چند درس وعبرت اور فوائد مستنبط ہوتے ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے، 1: سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے علی رضی اللہ عنہ کی مدد اور ان کی طرف سے دفاع: یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جو علی رضی اللہ عنہ سے متواتراً ثابت ہے، عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے آپ نے سب سے زیادہ دفاع کیا، اس کی صد اقت کے لیے متعدد اسانید موجود ہیں، انھیں میں سے ایک مروان بن حکم رضی اللہ عنہما کی یہ گواہی بھی ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ پوری قوم میں کسی نے دفاع نہیں کیا۔ [3] 2: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے بے نیازی، بے رغبتی ظاہر ہوتی ہے، آپ نے قطعاً اس کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ
Flag Counter