اشارہ اسی طرف ہے۔ [1] د:… علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ’’صدیق‘‘ کا لقب، اور ان کی بہادری وسبقت الی الخیرات کی شہادت: یحییٰ بن حکیم بن سعد سے روایت ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو حَلفیہ کہتے ہوئے سنا: ’’اللہ کی قسم! ابوبکر کا صدیق لقب اللہ تعالیٰ نے آسمان سے نازل فرمایا ہے۔‘‘ [2] صلہ بن زفرالعبسی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب کبھی علی رضی اللہ عنہ کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ذکر ہوتا تو فرماتے: سبقت لے جانے والے کی بات کرتے ہو، ا س ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جب کبھی ہم نے خیر کے کاموں میں حصہ لیا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ اس میں ہم سے آگے نکل گئے۔[3] محمد بن عقیل بن ابی طالب سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا، اور فرمایا: اے لوگو! بتاؤ کون سب سے بہادر ہے؟ ہم نے کہا: آپ اے امیرالمومنین، آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ وہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ غزوۂ بد رکے موقع پر جب ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سائبان لگارہے تھے تو ہم نے کہا: کون ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے رہے گا تاکہ کوئی مشرک آپ کو تکلیف نہ دے سکے؟ اس وقت صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ ذمہ داری قبول کی تھی، ننگی تلوار سونتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لیے کھڑے ہوگئے، جب کوئی بھی دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب آتا ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) تلوار لے کر اس کی طرف دوڑتے، میں نے وہ منظر دیکھا ہے کہ جب قریش نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو خانۂ کعبہ کے پاس پکڑ لیا تھا، آپ کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر کہہ رہے تھے:’’تم نے کئی معبودوں کو ایک معبود بنا دیا ہے؟‘‘ اس وقت صرف ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کی مدد کے لیے آگے بڑھے تھے، ان کے بالوں کی دو لٹیں تھیں، وہ رسول اللہ کو بچاتے ہوئے کبھی اپنے دائیں والوں کو گھونسے مارتے اور کبھی بائیں والوں کو اور کہتے: ’’کیا تم لوگ اس آدمی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب صرف اللہ ہے، وہ تمھارے رب کے پاس سے تمھارے لیے نشانیاں لے کر آیا ہے۔‘‘ اس اٹھا پٹک میں ابوبکر کی ایک لٹ بھی کٹ گئی، پھر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: میں تمھیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، ذرا بتاؤ کہ آل فرعون کا وہ مرد مومن (جس نے موسیٰ علیہ السلام سے تعاون کیا تھا) بہتر تھا یا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں؟ کسی نے کوئی جواب نہ دیا، پھر آپ نے خود ہی کہا: اللہ کی قسم! ابوبکر کا وہ ایک دن آل فرعون کے مرد مومن سے کہیں بہتر ہے، اس مرد مومن نے اپنے ایمان کو چھپائے رکھا، تو اللہ نے اس کی تعریف کی جب کہ یہ ابوبکر ہیں جنھوں نے اپنے جسم وجاں کو اللہ کے راستہ میں قربان کردیا۔[4] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |