’’یہ امر (خلافت) قریش میں رہے گا کوئی بھی اگر ان سے دشمنی کرے گا تو اللہ اسے رسوا کردے گا، لیکن اس وقت تک جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے۔‘‘ 2۔ اس سے پہلے کوئی امام منصب امامت پر موجود نہ ہو، اگر کوئی ہے تو ان کے لیے استحقاق خلافت کا دعویٰ درست نہیں ہے، گویا ابتدائے منصب اور انتخاب خلیفہ کے آغاز میں اس شرط کی رعایت واجب ہے، نہ کہ امامت کا تسلسل پہلے سے باقی رہتے ہوئے، اس لیے کہ موجودہ امام سے منصب امامت چھیننا اور اس کے خلاف خروج کرنا جائز نہیں ہے، وہ قریشی ہو یا کوئی اور[1]، بشرطیکہ وہ احکامات الٰہیہ کی تنفیذ کرتا ہو، ان سے منحرف نہ ہو، اور اس میں کفر بواح نہ دیکھا جاتا ہو، بصورت دیگر مسئلہ کا حل طاقت و قوت اور مصالح و مفاسد کی رعایت سے موقوف ہے۔ بعض صحابہ کی تنقیص اور عثمان و علی رضی اللہ عنہما کی تکفیر خوارج، روافض شیعہ سے اس مسئلہ میں جدا اور ممتاز ہیں کہ یہ لوگ ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی امامت کے قائل ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ ان دونوں کی امامت شرعی تھی، اس کی صحت اور مشروعیت میں کوئی شک و شبہ نہیں، نیز یہ کہ وہ دونوں مومنوں کی رضا و رغبت سے امام منتخب ہوئے تھے اوراللہ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چلتے رہے، اس میں کوئی تغیر و تبدیلی نہیں کی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے عمل صالح اور رعایا کی خیرخواہی پر انھیں موت دی۔ ان لوگوں کا یہ عقیدہ بالکل برحق اور سچ ہے۔ یقینا وہ دونوں ایسے ہی تھے، روافض اور ان کے دھوکہ میں آجانے والے لوگوں کے علاوہ کسی اور کو اس میں کوئی شک نہیں ہے، شیخین کے بارے میں خوارج کا یہ عقیدہ درستگی پر قائم ہے اور وہ اس سلسلہ میں توفیق یافتہ ہیں، ہاں اگر وہ بہکے اور ہلاک ہوئے تو ان دو خلفائے راشدین کے بارے میں جو شیخین کے بعد آئے، ان کے بارے میں وہ شیطان کے جھانسہ میں آگئے اور اس نے انھیں حق اور صواب سے نکال باہر کیا، مطلب یہ ہے کہ جس مدت میں عثمان رضی اللہ عنہ کے دشمنوں نے ان پر عیوب و الزامات لگائے تھے اس مدت خلافت پر آپ کی امامت کا انکار کیا، اسی طرح ’’تحکیم‘‘ کے بعد کی مدت خلافت پر علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا انکار کیا اور اپنی اس بدعقیدگی میں اس قدر ملوث ہوئے کہ آخری دونوں خلفاء راشدین کی تکفیر کرنے لگے، پھر طلحہ، زبیر، معاویہ، عمرو بن عاص، ابوموسیٰ اشعری، عبداللہ بن عباس اور معرکہ جمل و صفین کے شرکاء صحابہ رضی اللہ عنہم کی تکفیرکیا، ان تمام برگزیدہ ہستیوں کو عام طور سے اپنی عام طعن و تشنیع کا ہدف بنایا اور چند صحابہ کو خاص طور سے ہدف تنقید و تنقیص بنایا، عمومی طعن و تشنیع کی شکل یہ رہی کہ اصحاب رسول کے بارے میں کفر کا عقیدہ رچایا، علمائے شریعت نے اپنی اپنی کتب میں ان کے اس باطل اور گھناؤنے کردار کو تحریر کردیا ہے،[2] چنانچہ امام ابوالحسن |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |