Maktaba Wahhabi

996 - 1201
متاخرین کی امامت کی نفی کرتی ہے اور یہ لازم آتاہے کہ حسنین اور ان دونوں کے بعد کے پاکباز ائمہ سے امامت کی نفی کردی جائے، تو اگر اس تعارض کا یہ جواب دیا جائے کہ یہاں ایک خاص وقت میں ولایت کو محصور کرنا مراد ہے اور خاص وقت سے میری مراد علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا وقت ہے نہ کہ آپ کے بعد کے ائمہ کی حکومت کا وقت، تو ایسی صورت میں اہل سنت کی موافقت ہوئی، بایں طور کہ صرف آپ کی امامت کے وقت ولایت عامہ آپ کے حق میں تھی نہ کہ اس سے پہلے بھی۔[1] جب ان کے قوی ترین دلائل کا یہ عالم ہے تو یہیں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ کسی مستحکم اساس پر قائم نہیں ہیں۔ جب کہ بنیادی ضرورت یہ تھی کہ ایسے عظیم مسئلہ میں جو کہ بقول روافض دین کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ ہے اور جس کا منکر کافر ہوجاتا ہے، ضرورت اس بات کی تھی کہ اس کے لیے ایسے واضح الفاظ اور روشن دلائل استعمال کیے جاتے جسے ہر طبقہ کے انسانوں کو سمجھنا آسان ہوتا، جس طرح ایک عالم اسے سمجھتا، اسی طرح ایک عام آدمی بھی اسے مان لیتا اور جس طرح حاضرین نے اسے سمجھا بعد میں آنے والے بھی اسے سمجھتے۔ جس طرح ایک شہری سمجھتا ایک دیہاتی بھی اسے سمجھتا، پس جب اس طرح کی کوئی چیز قرآن میں استعمال ہی نہیں کی گئی تو اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نامزدگیٔ خلافت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔[2] جب کہ مذکورہ آیت ان کے اپنے استدلال کے لیے قرآن کی سب سے قوی ترین دلیل ہے اور اسے وہ ’’آیۃ الولایۃ‘‘ کہتے ہیں اس کے علاوہ دوسری آیات سے بھی وہ استدلال کرتے ہیں جنھیں ابن المطہر الحِلّی نے ذکر کیاہے اور علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان دلائل کا نہایت جامع جواب دیا ہے۔[3] آیۃ المباہلۃ: دلیل:… آیت مباہلۃ جو کہ وفد نجران کے بارے میں نازل ہوئی ہے اثنا عشری شیعہ کے نزدیک اثبات امامت کی دوسری دلیل ہے وہ آیت یہ ہے: فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾ (آل عمران:61) ’’پھر جو شخص تجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے، اس کے بعد کہ تیرے پاس علم آ چکا تو کہہ دے آؤ! ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمھاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو
Flag Counter