Maktaba Wahhabi

192 - 1201
اسلام نے انھیں عرب شرفاء کی نگاہوں میں لڑکیوں کو اتنا محبوب وعزیز بنادیا کہ ان کی پرورش و پرداخت کے لیے وہ آپس میں مقابلہ کرنے لگے ؟ وہ اس میں برابر ہوگئے، ان میں کوئی کسی پر بلاوجہ ترجیح اور ناحق اپنی بر تری نہیں دکھاتا تھا۔[1] عمرۃ القضاء کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ سے واپس ہونے کا ارادہ کیا تو حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی آپ کے پیچھے چچا، چچا کہتی ہوئی آئی، علی رضی اللہ عنہ نے انھیں لے لیا اور ہاتھ پکڑ کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس لائے اور کہا: اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو، میں اسے لے کر آیا ہوں، لیکن علی، زید، اور جعفر رضی اللہ عنہم کا آپس میں اختلاف ہوگیا، علی رضی اللہ عنہ نے کہا : میں اسے اپنے ساتھ لایاہوں اور یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میرے چچا کی بیٹی ہے، اور اس کی خالہ میرے نکاح میں ہیں، زید رضی اللہ عنہ نے کہا : یہ میرے بھائی کی بیٹی ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خالہ کے حق میں فیصلہ فرمایا، اور فرمایا: ((اَلْخَالَۃُ بِمَنْزِلَۃِ الْأُمِّ)) خالہ ماں کے درجہ میں ہوتی ہے اور علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: (( أَ نَْتَ مِنِّيْ أَنَامِنْکَ)) تم مجھ سے ہو، اور میں تم سے ہوں، جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ((اَشْبَہْتَ خَلْقِیْ وَخُلُقِيْ))تم شکل و صورت اور عادات واخلاق دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو، اور زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ((أَنْتَ أَخُوْنَا وَمَوْلَانَا)) تم ہمارے بھائی اور مولا ہو، علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو آپ اپنے نکاح میں لے لیں، لیکن آپ نے فرمایا: ((إِنَّہَا ابْنَۃُ أَخِيْ مِنَ الرَّضَاعَۃِ)) وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔ [2] فوائد، احکام، عبرت اور مواعظ 1: خالہ، ماں کے قائم مقام ہے۔ 2: والدین کی عدم موجودگی میں، اولاد کی پرورش کے لیے غیروں کے مقابلہ میں خالہ کو ترجیح حاصل ہے۔ 3: جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حق میں تزکیہ نبوی اور یہ توصیف کہ تم شکل وصورت اور عادات واخلاق دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو۔ 4: زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ منقبت نبوی کہ تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولاہو، کیونکہ زید رضی اللہ عنہ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے مواخاتی بھائی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کے مابین مواخات کرائی تھی۔ ایسی صورت میں زید رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد سے اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ اولاد کے تئیں جو ذمہ داریاں حقیقی بھائی پر عائد ہوتی ہیں، ’’مواخاتی‘‘ ہونے کے ناتے اب وہ ذمہ داریاں ان پر بھی عائد ہوتی ہیں، لہٰذا ان پر واجب ہے کہ وہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے ولی اور ذمہ دار ہوں۔ 5: کسی عورت کا شادی شدہ ہونا اس سے حق حضانت (پرورش) کو ساقط نہیں کرتا۔ اس واقعہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حمزہ کی بیٹی کی پرورش کا حق اس کی خالہ کو دیا، حالانکہ وہ جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی منکوحہ تھیں جب کہ اس کی حقیقی پھوپھی صفیہ بنت عبدالمطلب رضی اللہ عنہا اس وقت باحیا ت تھیں۔
Flag Counter