جانے کا ہوگا اور اگر گھوڑوں پر سوار ہو کر اونٹوں کو چرانے کے لیے ہانکا ہو، تو ان کا ارادہ مدینہ پرحملے کا ہوگا، واللہ اگر انھوں نے مدینہ کی طرف رخ کیا تو ہم ابھی فوراً ان کا پیچھا کریں گے اور ان کا زبردست مقابلہ کریں گے۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ان کی نقل و حرکت کا پتا کرنے کے لیے میں ان کے پیچھے لگ گیا، دیکھا تو وہ گھوڑوں کو پہلو میں ایک جانب کرکے اونٹوں پر سوار ہو کر مکہ کا رخ کر چکے تھے، پھر میں واپس آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صورت حال سے آگاہ کیا۔[1] اس واقعہ کے دروس و مواعظ اور عبرتیں: ٭ اس واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شجاعت قابل دید ہے کہ آپ مشرکین کی صف میں گھس کر ان سے نبرد آزما تھے، کافی مشقت، مار دھاڑ اور زخم کھانے کے بعد علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور پہنچ کر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے قلب میں گھسے ہوئے ہیں۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن سے ہمہ وقت چوکنا رہتے اور اس کی نقل و حرکت پر نہایت گہری نگاہ رکھتے، حالات کو سمجھنے، مد مقابل کی نقل و حرکت کا تجزیہ کرنے اور مستقبل کی توقعات و اندیشوں کو اچھی طرح بھانپ لینے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عبور حاصل تھا۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند ترین روحانی عزم و حوصلہ اور قوت کے مالک تھے، اس عزم وحوصلہ کا عکس آپ کے معرکہ کی تیاری میں صاف نظر آرہا ہے، کہ اگر مشرکین مکہ، مدینہ پر چڑھائی کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ابھی جم کر ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی رضی اللہ عنہ پر مکمل اعتماد تھا اور انھیں جو ہری شخصیات کی معرفت کا ملکہ حاصل تھا۔ ٭ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مروت و مکارم اخلاق جیسے اوصاف حمیدہ کے مالک تھے، چنانچہ مقابلہ میں جب آپ نے دشمن کو پچھاڑ دیا اور اس کی شرم گاہ کھل گئی، تو آپ شرم کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کوئی نکیر نہ کی۔ آپ کا یہ کردار دشمن کے ساتھ برتاؤ کی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے اورسبق دیتا ہے کہ دشمن کے ساتھ عام حالات تو کیا میدان جنگ میں بھی کیا سلوک کرنا چاہیے۔ ٭ اللہ کے راستہ میں قربانی دینا واجب ہے، قربانی کی روح ہی دنیا میں اسلام کی سرفرازی اور آخرت میں جنت کی ضامن ہے، اس حقیقت کو غزوۂ احد وغیرہ میں بہت سے مہاجرین و انصار صحابہ نے کر دکھایا۔ ٭ اللہ پر کامل توکل کے ساتھ ساتھ اسباب و وسائل کو استعمال کرنا ضروری ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو چند ہدایات کے ساتھ جبل احد پر مقرر کیا تھا، لیکن انھوں نے غلطی کی اور پہاڑ سے نیچے اتر گئے، جس کے نتیجہ میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ٭ علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت بھی دیکھی جاسکتی ہے، کہ آپ خطرات کے گھیرے میں تھے، اگر آپ دشمن کو نظر آجاتے تو وہ آپ کو قتل کرنے سے نہ چوکتے۔[2] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |