Maktaba Wahhabi

178 - 1201
مقابلہ کے لیے سامنے آئے اور اسے چیلنج دیتے ہوئے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تجھے اس وقت تک نہ چھوڑوں گا جب تک کہ اللہ تعالیٰ تجھے میری تلوار سے جلد سے جلد جہنم رسید نہ کردے یا تیری تلوار سے مجھے جلد از جلد جنت میں نہ پہنچا دے۔ اور پھر اس پر سخت وار کیا، جس سے اس کا پاؤں جسم سے جدا ہوگیا اور وہ زمین پر آگرا، اس کی شرم گاہ کھل گئی، اس نے کہا: اے میرے چچازاد بھائی! میں تجھے اللہ اور قرابت داری کا واسطہ دیتا ہوں کہ مجھے چھوڑ دو، آپ پیچھے ہٹ گئے، اور اس کا کام تمام نہیں کیا، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کی صدا بلند کی جبکہ علی رضی اللہ عنہ سے ان کے بعض ساتھی کہنے لگے: تم نے اس کا کام کیوں نہیں تمام کردیا؟ آپ نے جواب دیا کہ جب اس کی شرم گاہ گھل گئی تو اس نے اللہ اور قرابت داری کا واسطہ دیا، اس لیے مجھے شرم آگئی اور میں نے چھوڑ دیا۔[1] جب معرکۂ کارزار گرم ہوا، دونوں افواج آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں تو آپ میمنہ میں ہوگئے اور معصب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدآپ ہی نے پرچم اسلام کو اپنے ہاتھ میں سنبھالا، اس غزوہ میں اگرچہ مسلمانوں کو سخت مشکل حالات کا سامنا کرناپڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دفاع میں آپ بھی آزمائے گئے، لیکن کافروں کو زبردست نقصان اٹھانا پڑا او ران کے بے شمار افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے۔[2] اس غزوہ میں جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب گڑھے میں گر گئے تھے، تو اس وقت علی رضی اللہ عنہ ہی نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو باہر نکالاتھا۔[3] اس غزوہ میں مہاجرین و انصار میں سے بہت سارے ممتاز صحابہ شہید ہوئے تھے، جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ پہنچا تھا اور اسی کے بالمقابل دشمنوں کو بھی اللہ کے رسول کی طرف سے سخت نقصان اٹھانا پڑا تھا، ان ظالموں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو خون آلود کردیا، اس وقت آپ کی لخت جگر فاطمہ اور داماد علی رضی اللہ عنہما نے آپ کی مرہم پٹی کی، اور چہرہ انوار و ریش مبارک پر بہتے ہوئے خون کو پونچھا۔[4] اس غزوہ میں علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بے باک شجاعت کا مظاہرہ کیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ خبر پھیل گئی کہ آپ شہید کردیے گئے اور علی رضی اللہ عنہ کو آپ نظر نہ آئے تو آپ رضی اللہ عنہ نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر زندگی میں لطف ہی کیا ہے۔ پھر آپ اٹھے اور تلوار کی میان توڑ دیا اور دشمن پر پل پڑے، مسلمانوں نے آپ کے لیے راستہ خالی کردیا، اچانک آپ کی نگاہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی۔[5] آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگئے اور جانباز بہادروں کی طرح آپ کی طرف سے دفاع کیا، اس جنگ میں آپ کو سولہ (16) زخم آئے۔ جب مشرکین کا لشکر میدان جنگ خالی کرکے پیچھے ہٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دشمن کی واپسی کا رخ معلوم کرنے کے لیے فوراً علی رضی اللہ عنہ کو اس کے پیچھے بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تم دشمن کا پیچھا کرو اور دیکھو وہ کیا کر رہے ہیں؟ اور ان کا ارادہ کیا ہے؟ اگر گھوڑوں کو پہلو میں ایک جانب کرکے اونٹوں پر سوار ہوگئے ہوں تو ان کا ارادہ مکہ
Flag Counter