Maktaba Wahhabi

774 - 1201
مذکورہ دونوں رافضی راویوں کی طرف سے یہ قصہ چہار دانگ عالم میں پھیل گیا اور بعد کے شیعہ نیز بعض سنی مؤرخین جو روافض کے جھوٹ اور ان کی غلط بیانیوں کو پہچاننے سے عاجز رہے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔[1] یہ قصہ اصحاب رسول کے خلاف روافض شیعہ کی غلط بیانی اور افتراء پردازی کا ایک نمونہ ہے، دشمنان صحابہ یعنی رافضی مؤرخین نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نقائص و گستاخیوں کا طورمار باندھ کر انھی قصوں اور اشعار کی شکل میں خوب رواج دیا ہے تاکہ یہ باتیں بآسانی مسلمانوں کے درمیان پھیل سکیں۔ انھوں نے اہل سنت کی لاعلمی میں پاک باز صحابہ کی شان میں تحقیر و تذلیل کا نشانہ سادھا، حالانکہ اہل سنت نے دیر ہی سہی، لیکن اسلام کی تاریخی روایات کی تحقیق کے میدان میں قدم رکھا، لیکن افسوس جب تک تحقیق کا دروازہ کھلا تب تک بہت سارے قصہ گو حضرات کے نزدیک یہ اشعار اور حکایات زبان زد ہوچکے تھے اور بہت سی خرافات مسلمات و یقین کا درجہ پاچکی تھیں، حتیٰ کہ بعض اہل سنت مؤرخین کے نزدیک بھی ان کو یہی درجہ مل چکا تھا۔[2] 15۔صفین سے واپسی کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا قبروں کی زیارت کرنا: جنگ صفین سے لوٹنے کے بعد امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ چند قبروں سے گزرے تو یہ دعا کیا: اے وحشت ناک مکانوں کے اور ویران پڑاؤ گاہوں کے مومن، و مومنہ، اور مسلم و مسلمہ مکینو! تم ہم سے پہلے پہنچے والے ہو اور ہم تمھارے پیچھے ہیں، عنقریب ہم تم سے ملنے والے ہیں۔ اے اللہ تو ہمیں اور ان کو بخش دے، ہم سے اور ان سے گناہوں کو درگزر کردے، ہر قسم کی تعریف اللہ واحد کے لیے ہے جس نے زمین کو زندوں اور مردوں کے لیے سنگم بنایا، اللہ ہی کے لیے تعریف ہے، جس نے تمہیں پیدا کیا، اسی پر تمہیں اکٹھا کرے گا اور اسی سے تمہیں اٹھائے گا، بشارت ہے اس شخص کے لیے جس نے آخرت کو یاد کیا، حساب کی تیاری کی اور قناعت کی زندگی گزاری۔[3] 16۔قاتلین عثمان کا جنگ پر اصرار: قاتلین عثمان پوری کوشش میں تھے کہ طرفین سے لڑائی برابر چلتی رہے، تاکہ سب آپس میں مرمٹیں اور دونوں کی قوت کمزور ہوجائے اور یہ لوگ قصاص اور سزا سے بچ جائیں، اسی لیے جب انھوں نے اہل شام کو جنگ بندی کے لیے مصاحف اٹھائے ہوئے دیکھا اور علی رضی اللہ عنہ کودیکھا کہ وہ اہل شام کا مطالبہ قبول کرتے ہوئے جنگ بندی کا حکم دے رہے ہیں تو یہ لوگ گھبرائے اور امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو ان کے عزم سے روکنے کی پوری کوشش کرنے لگے، لیکن اب جنگ بند ہو چکی تھی اور یہ لوگ حیران تھے، اس لیے اب ان کے سامنے اس بات کے علاوہ کوئی چارکار نہ تھا کہ علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیں، چنانچہ انھوں نے ’’الحکم للہ‘‘ کا مقولہ گھڑا اور دونوں گروہوں سے کٹ کر الگ جاکر پناہ لے لی، جنگ جمل کی طرح اس معرکہ میں ان کا اصل ہاتھ رہا یہاں بھی یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھے، لیکن افسوس مؤرخین نے اس پر توجہ کو مرکوز نہ کیا اور نہ ہی اس راز سے پردہ ہٹایا کہ
Flag Counter