ہے وہ ہم میں سے نہیں، دنیا و آخرت دونوں جگہ ہم ایسے شخص سے اپنی براء ت کا اعلان کرتے ہیں۔[1] اسی طرح بعض شیعی روایات اللہ جل شانہ کے بارے میں ان کے اقوال اور عقائد کی ترجمانی کرتی ہیں، چنانچہ جماعت شیعہ ہی کے ایک ثقہ آدمی[2]نے ابوعبداللہ سے کہا: ہمارے ہم مذہب بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ انسان کی طرح اللہ کی صورت ہے اور دوسرا کہتا ہے کہ وہ بے ریش امرد اور گھنگھریلے بالوں والا ہے، یہ سن کر ابوعبداللہ سجدہ میں گر گئے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: پاک ہے وہ ذات جس کے مثل کوئی چیز نہیں، نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور نہ کسی کا علم اس کا احاطہ کرسکتا ہے۔[3] آپ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بڑے بڑے متکلمین نے اللہ کے اسماء و صفات کے اثبات میں غلو سے کام لیا ہے اور اتنا غلو کہ اللہ کو اس کی مخلوق کے مشابہ قرار دے دیا جو کہ اللہ کے ساتھ کفر ہے، اس لیے کہ اللہ کا ارشاد ہے: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ (الشورٰی:11) ’’اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ پھر اللہ کی وہ صفات جو اسی کے لائق تھے ان سے اسے محروم کردیا اور جن اوصاف سے اس نے خود کو متصف نہ کیا تھا ان سے اسے موصوف کردیا، جب کہ ان کا امام ان کے اس گمراہ کن منہج کی تردید کرتا رہا اور ذات باری کو انھیں اوصاف سے موصوف کرنے کی تلقین کرتا رہا، جن سے اللہ نے خود کو موصوف کیا ہے، بہرحال اس سلسلہ میں ان کی اور بھی بہت سی روایات ہیں۔[4] حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے اسماء وصفات کے اثبات میں غلو کا رجحان اس حقیقی ’’اثبات‘‘ کو دیکھ کر پیدا ہوا جس پر اہل بیت قائم تھے، اس طرح اثبات کا یہ مذہب دو نظریات و رجحانات کے بیچ الجھ گیا، ایک تجسیم کا نظریہ جس کا قائل ہشام بن حکم ہوا اور دوسرا اثبات کے ساتھ تنزیہ کا نظریہ، جس کے قائل اہل بیت رہے، اس کی شہادت شیعہ روایات سے بھی ملتی ہے اور اہل علم کی کتب میں بھی اس پر مفصل بحث موجود ہے۔[5] 10۔ تعطیل، شیعی عقائد میں: اوصاف الٰہیہ کے اثبات میں اس غلو کے بعد شیعہ مذہب میں تیسری صدی کے آخر میں تبدیلی شروع ہوگئی، اور یہ لوگ معتزلی مذہب سے متاثر ہو کر کتاب و سنت سے ثابت شدہ اوصاف الٰہیہ کی تعطیل کا شکار ہوگئے، پھر چوتھی صدی ہجری میں جب مفید اور اس کے پیروکاروں میں سے ابوجعفر طوسی اور شریف مرتضی کے لقب سے مشہور موسوی جیسے لوگوں نے اس موضوع پر قلم اٹھایا تو شیعیت کا رجحان تعطیل کی طرف زیادہ بڑھ گیا، ان لوگوں نے معتزلہ کی کتب پر اعتماد کیا تھا،[6] بلکہ بہت ساری باتیں حرفاً حرفاً معتزلہ ہی سے منقول تھیں، صفات الٰہیہ اور تقدیر سے متعلق |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |