لہٰذا یہ پہلو قابل غور ہے کہ ایک حواری کی ذمہ داری کیاہو؟ اور اسے کس بات کے لیے کوشاں ہونا چاہیے؟ جواب بالکل صاف اور واضح ہے، یعنی اسے قدوۂ حسنہ، ایمان و عمل، خلوص و للہیت اور حواری کی خاص ترین صفت فدائیت و جاں نثاری کی زندہ تصویر ہونا چاہیے، تاکہ وارثان انبیاء کی حقیقی مثال بن سکے، پھر حق اور خیر کی نشر و اشاعت کے لیے تگ و دو کر سکے، امت کی ہدایت اور اسے پستی سے نکالنے کے لیے اپنی جان کھپائے، اپنی مہنگی سے مہنگی اور قیمتی سے قیمتی جائداد کو اللہ کے راستہ میں قربان کرکے ایک ایسے وقت میں مسلم معاشرہ میں تازگی اور بیداری کی روح پھونکے جب کہ پست ہمت مسلمان اور مردہ دل مسلم سماج صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے جی رہا ہے۔[1] پس زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ ایک حواری کے ان اوصاف کا مجسم و منفرد نمونہ تھے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگہداشت میں دعوت اسلامی کی گود میں پرورش پائی تھی اور عنفوان شباب ہی سے اس دعوت کی ذمہ داریوں کو اٹھانے کے قابل بننے کے لیے عزم و استقلال کا دودھ پیاتھا، غزوۂ احزاب کے موقع پر آپ کا موقف ہمارے سامنے آپ کی شخصیت، حق کے لیے نصرت و بے باکی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کی منظر کشی کرتا ہے اور تاریخ سے بھی ثابت کردیا ہے کہ آپ جانگسل مواقع اور مشکل ترین مہموں کے مرد مجاہد تھے، آپ بہادر اور نڈر تھے، اور ساتھ ہی پیش پیش رہنے والے تھے، تبھی تو آپ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ دشمن کی نقل و حرکت معلوم کرکے آئیں اور بتائیں۔ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو کچھ پیش آیا اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے کہ دعوتِ اسلامی کے اراکین کے کاموں کو تقسیم کردیا جائے اور ہر داعی کو اس کے اخلاص، فدائیت، قربانی اور اس کی صلاحیت و لیاقت کے اعتبار سے ذمہ داری سونپی جائے۔[2]بہرحال زبیر بن عوام تمام تر غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، اور نمایاں کردار ادا کرتے رہے، پھر خلفائے راشدین کے عہد میں اسلامی حکومت کی بڑی بڑی فتوحات میں اس کے رکن اساسی رہے۔ 6۔غزوۂ یرموک میں: عروہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے یرموک کی جنگ میں کہا: آپ حملہ کرتے تو ہم بھی آپ کے ساتھ حملہ کرتے، انھوں نے کہا کہ اگر میں نے ان پر زور کا حملہ کردیا تو پھر تم لوگ پیچھے رہ جاؤ گے۔ سب بولے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے۔ چنانچہ زبیر رضی اللہ عنہ نے دشمن (رومی فوج) پر حملہ کیا اور ان کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے نکل گئے، اس وقت ان کے ساتھ کوئی ایک بھی (مسلمان) نہیں رہا، پھر (مسلمان فوج کی طرف) آنے لگے، تو رومیوں نے ان کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور کندھے پر دوکاری زخم لگائے، جو زخم بدر کی لڑائی کے موقع پر ان کو لگا تھا وہ ان دونوں زخموں کے درمیان پڑگیاتھا۔ عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ جب میں چھوٹا تھا تو ان زخموں میں اپنی انگلیاں ڈال کر کھیلا کرتاتھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ یرموک کی لڑائی کے موقع پر عبداللہ بن |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |