صاف ظاہر ہے کہ جب اس نے کہا تھا: اے اللہ کے رسول! عدل کیجئے۔[1] درا صل یہ کہہ کر اس نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ صاحب ورع و تقویٰ ثابت کرنا چاہا اور مال کی تقسیم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم، اور ناانصافی کا حکم لگا دیا، ان کی یہ صفت تاریخ کے ہر دور میں ان کے ساتھ چسپاں رہی ہے اور اس کے بہت ہی بدترین نتائج سامنے آئے ہیں، کیونکہ یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ اس پر بہت کچھ احکام و مسائل مرتب ہوتے ہیں۔[2] بدگمانی: خوارج کی یہ ایک اور صفت ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ذو الخویصرہ جیسے نرے جاہل کے اعتراض میں نمایاں ہے، وہ آپ پر عدم اخلاص کا حکم لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ اللہ کی قسم! یہ تقسیم غیر منصفانہ ہے، اس میں اللہ کا خوف ملحوض نہیں رکھا گیا ہے۔[3] عقل و خرد کے مارے ہوئے ذو الخویصرہ نے جب دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مال اشراف اغنیاء کو دے دیا اور فقراء کو نہیں دیا، تو عجیب بات ہے کہ اس نے اسے کسی اچھی توجیہ پر محمول نہیں کیا، حالانکہ خوش گمانی کے اسباب موجود تھے، مثلاً اگر وہ یہی سوچ لیتا کہ تقسیم کرنے والی شخصیت کوئی معمولی نہیں بلکہ ایک عظیم ذات ہے جو ہدایت کا رسول ہے، تو بس خوش گمانی کے لیے یہی چیز کافی ہوتی، لیکن ذو الخویصرہ کب اسے مانتا، اس نے نفسانی ہوس کو ترجیح دی اور بدگمانی کی اور کوشش کی کہ اس کوڑھ ذہنیت کو عدل جیسے خوش نما لفظ کے سہارے پیش کرے، اسے دیکھ کر ابلیس ہنس پڑا، اس پر مکر و فریب کا جال ڈال دیا اور اس میں پھانس لیا، اس لیے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنا محاسبہ کرتا رہے، حرکات و سلوک کے اسباب و عوامل کا جائزہ لیتا رہے، نفسانی خواہشات سے ڈرتا رہے اور ابلیس لعین کے حیلوں سے خبردار رہے، کیونکہ وہ اکثر و پیشتر برے اعمال کو نہایت حسین اور چمک دار غلاف میں پیش کرتا ہے، حق اور حقانیت کے نام پر برے کردار کے لیے وجہ جواز ڈھونڈتا ہے، پس اس راہ میں شیطانی چالوں سے بچنے اور نفسانی خواہشات کے جھانسوں میں نہ آنے کا واحد ذریعہ علم ہے۔ ذوالخویصرہ کے پاس اگر کچھ بھی علم ہوتا یا دانائی کی معمولی سی رمق ہوتی تو وہ ہلاکت کی اس وادی میں نہ پھسلتا۔[4] مسلمانوں کے خلاف شدت پسندی: خوارج، سنگ دلی اور اکھڑپن کے لیے مشہور ہیں۔ وہ شروع ہی سے مسلمانوں کے خلاف سنگ دل اور شدت پسند واقع ہوئے ہیں، ان کی شدت قابل ملامت حد تک پہنچی ہوئی ہے، اسی بنا پر انھوں نے مسلمانوں کی جان، مال، آبرو اور آل و اولاد کو اپنے لیے حلال اور انھیں قتل کرنا باعث اجر سمجھا، بت پرست وغیرہ دشمنانِ اسلام کو نظر انداز کیا اور انھیں تکلیف دینا روا نہیں سمجھا، اس باب میں تاریخ ان کے سیاہ کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، ابھی قریب ہی میں عبداللہ بن خباب کے ساتھ انھوں نے جیسا برتاؤ کیا وہ آپ کے سامنے ہے، گویا مسلمانوں کے ساتھ ان کا برتاؤ قساوت قلبی، تشدد اور جبر پر مبنی ہے، کافروں کے لیے یہ بے حد نرم، دوستی کا |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |