Maktaba Wahhabi

119 - 263
وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘[1] ’’زمین اور آسمان کی تخلیق میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں اُن ہوشمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اُٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور کرتے ہیں۔(وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں)''اے ہمارے رب! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا، تو پاک ہے اس سے عبث کام کرے، پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔‘‘ آسمان کی تخلیق میں اتنے معجزات پوشیدہ ہیں کہ انہیں دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے۔ کائنات میں بکھری ہوئی نشانیوں کو دیکھ کر ایک انصاف پسند اور سلیم الفطرت انسان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ اتنا منظم اور اعلی درجے کا نظام کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتا اور نہ کسی چلانے والے کی نگرانی کے بغیر چل سکتا ہے۔ اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’قُلِ انظُرُواْ مَاذَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ وَمَا تُغْنِي الآيَاتُ وَالنُّذُرُ عَن قَوْمٍ لاَّ يُؤْمِنُونَ‘‘ ’’اِن سے کہو'' آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسے آنکھیں کھول کر دیکھو'' اور جو لوگ ایمان لانا ہی نہیں چاہتے ان کے لیے نشانیاں اور تنبیہیں آخر کیا مفید ہو سکتی ہیں۔‘‘[2] 3-اللہ تعالیٰ کے بادلوں کے سائے میں آنے کی توجیہ اور فرشتوں کے آنے کے وقت کی تعیین از الوانی رحمہ اللہ: سورۃ البقرۃ:210یہ تخویف دنیوی ہے۔ وہ شریر لوگ جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہر وقت شرارتوں میں مصروف رہتے ہیں اور جن کی شرارتیں اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب وہ قیامت سے پہلے شروفساد سے باز نہیں آئیں گے۔ ان سے کیوں جہاد نہیں کرتے ہو۔ یُنْظَرُوْنَ کی ضمیر یہود کی طرف راجع ہے[3]یہودی اللہ تعالیٰ کے جسم کے قائل تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جب ٹھاٹھ اور شان وشوکت سے آتا ہے تو بادلوں پر سواری کر کے آتا ہے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر حضرت موسیٰ(علیہ السلام)پر تجلی ڈالی تھی وہ بادلوں ہی سے ڈالی تھی۔ تو یہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں کے خیال کے مطابق فرمایا کہ یہ یہودی جو اسلام کو قبول نہیں کر رہے یہ اس انتظار میں ہیں کہ اللہ اور اس کے فرشتے بادلوں پر سوار ہو کر آئیں اور قیامت
Flag Counter