سرزمین کی بات ہے تو اس کے جرائم ناقابل معافی اور عذر ناقابل قبول ہیں، ہم کسریٰ سے عہد و پیمان کرکے یہاں آئے ہیں کہ نئی چیز کو خود ایجاد نہیں کریں گے اور نہ ہی نئی چیز لے کر آنے والے کو پناہ دیں گے۔ اے برادر قریش! میرے خیال سے تم جس چیز کی دعوت دے رہے ہو، اسے شاہان مملکت کبھی پسند نہیں کریں گے، لہٰذا اگر تم پسند کرو کہ عربوں کی سرزمین میں ہم تمھیں جائے پناہ دیں اور مدد کریں تو یہ ہوسکتا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا اَسَأتُمْ فِی الرَّدِّ اِذَا اَفْصَحْتُمْ بِالصِّدْقَ وَاِنَّ دِیْنَ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ لَنْ یَّنْصُرَہٗ اِلَّا مَنْ حَاَطہٗ مِنْ جَمِیْعِ جَوَانِبِہٖ، أَرَأَیْتُمْ اِنْ لَّمْ تَلْبَثُوْا اِلَّا قَلِیلًا حَتّٰی یُوَرِّثَکُمُ اللّٰہُ تَعَالیٰ أَرْضَہُمْ وَ دِیَارَہُمْ وَ یُفْرِشُکُمْ نِسَائَ ہُمْ، أَتُسَبِّحُوْنَ اللّٰہَ وَ تُقَدِّسُوْنَہُ۔)) ’’صراحت سے سچی بات کہہ کر تم نے کوئی برا جواب نہیں دیا، یقینا اللہ کے دین کا حقیقی معاون وہی ہوسکتا ہے جو اسے ہر اعتبار سے جانچ پرکھ لے، تمھارا کیا خیال ہے کہ اگر کچھ ہی عرصہ میں اللہ تعالیٰ تمھیں ان کی زمینوں اور آبادیوں کا وارث بنا دیتا ہے او ران کی عورتوں کو تمھارے لیے حلال کردیتا ہے تو تم اس کی تسبیح و تقدیس کرو گے۔‘‘ نعمان بن شریک نے کہا، اگر اللہ نے چاہا تویہ بات تقریباً طے ہے۔[1] اس واقعہ سے علی رضی اللہ عنہ نے کیا سیکھا اور کیا پایا: ٭ آپ نے پہلا سبق یہ سیکھا کہ ایسی قوتیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مدد کی پیش کش کرچکی تھیں، انھیں آپ نے اس کے بدلہ ایسی کوئی بھی ضمانت دینے سے انکار کردیا جس میں کسی کو یقینی طور سے قیادت یا حکومت دی جائے گی یا اسلام کی دعوت کی مدد اور تائید کا انھیں کوئی معاوضہ ملے گا، اس لیے کہ دعوت اسلام دراصل اللہ کی طرف دعوت ہے، جو اس دعوت کی تصدیق کرے اور اس کی مدد کے لیے مستعد رہے، اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ اللہ کے لیے مخلص ہو اور اسی کی رضا چاہتا ہو، کیوں کہ یہی وہ بنیادی مقاصد ہیں جن کے لیے قربانیاں دی جاتی ہیں، کوئی شخص دعوت اسلام اس لالچ میں قبول نہ کرے کہ اس سے ہمارا قد لمبا ہوجائے گا یا سرداری مل جائے گی۔ دراصل بنیادی مقصد کی اصلاح پر اس قدر زور اس لیے ہے کہ انسان جس مقصد کو سامنے رکھتا ہے وہی اس کی حرکت و نشاط کی اصل محرک ہوتی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دعوت اسلام کی مدد و تائید کے پیچھے جو مقصد کارفرما ہے وہ ہر طرح کی دنیاوی اور مادی مصلحتوں سے پاک ہو تاکہ ہمیشہ کی تائید یقینی رہے اور ہر انحراف سے حفاظت کی ضمانت ہو اور پختہ و کامل اعتماد ہو کہ اسلام کی دعوت کو قبول کرلینے والا اس کی تقویت کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا اور اس راستہ میں قربانیاں دینے کو تیار رہے گا۔[2] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |