Maktaba Wahhabi

91 - 1201
دعوت ہے کہ اللہ واحد کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں اللہ کا بندہ اوراس کا رسول ہوں، تم مجھے جائے پناہ دو، اور میری مدد کرو، کیوں کہ قریش کے لوگ اللہ سے بغاوت اور اس کے رسول کی تکذیب کر رہے ہیں، باطل کو لے کر حق سے بے نیاز ہیں، حالانکہ اللہ ہی کامل بے نیاز اور سراپا لائق ستائش ہے، مفروق نے کہا: اے قریش کے بھائی! آپ کی اور کیا دعوت ہے؟ اللہ کی قسم! اس سے بہتر بات تو میں نے آج سے پہلے سنی بھی نہ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی: قُلْ تَعَالَوْا أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ ۖ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۖ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُم مِّنْ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ ۖ وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ ۖ وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّـهُ إِلَّا بِالْحَقِّ ۚ ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿١٥١﴾ (الانعام:151) ’’کہہ دے آؤ میں پڑھوں جو تمھارے رب نے تم پر حرام کیا ہے، (اس نے تاکیدی حکم دیا ہے) کہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ خوب احسان کرو اور اپنی اولاد کو مفلسی کی وجہ سے قتل نہ کرو، ہم ہی تمھیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی اور بے حیائیوں کے قریب نہ جاؤ، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور اس جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے مگر حق کے ساتھ۔ یہ ہے جس کا تاکیدی حکم اس نے تمھیں دیا ہے، تاکہ تم سمجھو۔‘‘ مفروق نے کہا، یقینا تم مکارم اخلاق اور محاسن اعمال کی دعوت دیتے ہو، جو قوم تمہیں جھٹلاتی ہے اور تمھاری مخالفت کرتی ہے وہ تہمت طراز ہے، اس کے بعد مفروق نے معاملہ ہانی بن قبیصہ کی طرف پھیر دیا او رکہا: یہ ہمارے بڑے بزرگ ہیں اور دینی پیشوا ہیں، یہی کچھ بتائیں گے چنانچہ ہانی نے کہا، اے برادر قریش! ہم نے تمھاری بات سن لی، لیکن ایک ہی ملاقات اور ایک ہی مجلس میں ہم اپنا دین چھوڑنا اور آپ کی بات مان لینا مناسب نہیں سمجھتے، ممکن ہے کہ جلد بازی میں ہم سمجھنے میں غلطی کرجائیں اور انجام کا ہمیں صحیح علم نہ ہوسکے، کیوں کہ عموماً جلد بازی ہی میں لغزش ہوا کرتی ہیں اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ جو لوگ ہمارے پیچھے ہیں ان کو کچھ بتائے بغیر آپ سے کوئی معاہدہ اور پختہ وعدہ کرلیں، ہاں ہم یہاں سے لوٹ کر جائیں گے اور آپ بھی جائیں، پھر ہم غور کریں گے، لیکن آخر میں ہانی نے سوچا کہ اس سلسلہ میں مثنیٰ بن حارث کو بھی شریک کرلیا جائے تو بہتر ہوگا، چنانچہ اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہا: یہ مثنیٰ ہیں ہمارے بڑے بزرگ ہیں، ہمارے فوجی و جنگی معاملات کے ذمہ دار ہیں، یہ جو کہیں، چنانچہ مثنیٰ نے کہا جو کہ بعد میں اسلام لے آئے، اے برادر قریش: ہم سب نے آپ کی بات سن لی، اپنا دین چھوڑنے اورآپ کی دین کی پیروی کرنے سے متعلق ہم بھی ہانی بن قبیصہ کی رائے پر متفق ہیں، لیکن چونکہ ابھی ہم یمامہ اور سمامہ دو پانیوں کے درمیان ہیں اس لیے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ دوپانیوں سے کیا مراد ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ایک تو کسریٰ کی نہریں ہیں اور دوسرا عربوں کے چشمے، جہاں تک کسریٰ کی
Flag Counter