نے وہاں پہنچ کر انھیں بحیثیت گورنر کچھ دنوں کے لیے بحرین بھیج دیا۔[1] پھر اپنی مصاحبت کے لیے انھیں عراق واپس بلا لیا۔ علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بحرین کے دیگر گورنروں میں قدامہ بن عجلان انصاری،[2] نعمان بن عجلان انصاری،[3] اور عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا نام بھی شامل ہے۔[4] واضح رہے کہ عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اصلاً یمن کے گورنر تھے اور یہاں آپ کی گورنری کا مطلب ہے کہ شاید اس مدت میں بحرین اور نجد، یمن کے تابع تھے۔ طبرانی کی تعبیر سے یہی اشارہ ملتا ہے، اسی طرح خلیفہ ابن خیاط کی تعبیر سے بھی مذکورہ لوگوں کی گورنری کی طرف اشارہ ملتا ہے، لیکن انھیں ترتیب کی معرفت نہیں کہ کون پہلے گورنر ہوا اور کون بعد میں۔[5] تاریخی مصادر میں علی رضی اللہ عنہ کے چند ایسے افسران کا نام ملتاہے جنھیں آپ نے عمان روانہ کیا تھا، تاکہ وہاں اپنے خلاف اٹھنے والے انقلابات اور بغاوتوں کو ختم کرسکیں، ان سرکردہ شخصیات میں ایک عمان کے گورنر تھے اور دوسرے سربراہ فوج،[6] اسی طرح یمامہ پر بھی آپ کا ایک عامل مقرر تھا،[7] لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ بحرین کے گورنر کی نگرانی میں ہوتا تھا۔[8] یمن: جب عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے اور علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت تمام ہوگئی تو آپ نے یمن کی گورنری عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالہ کر دی۔[9] ابھی عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یمن پہنچے نہ تھے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے گورنر و افسران پہلے ہی وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جنگ جمل میں شریک ہوگئے اور اہم کردار ادا کیا۔[10] یمن کی دار الحکومت صنعاء پہنچ کر عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے گورنری سنبھالی، یمن کے سالار لشکر سعید بن سعد بن عبادہ انصاری بھی بحیثیت معاون آپ کے ساتھ رہے۔ [11]عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے یمن کے باشندوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا تھا اور قاتلین کا یہ جرم ان کے لیے ناقابل برداشت تھا، اس لیے وہاں کے کچھ لوگوں نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت نہیں کی اور وہ قاتلین عثمان کے خلاف کارروائی چاہتے تھے، چنانچہ جب علی رضی اللہ عنہ کی کارروائی میں تاخیر دیکھی تو تحکیم کے بعد ان لوگوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط وکتابت شروع کردی، جس کے جواب میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے بُسر بن ارطاۃ رضی اللہ عنہ کو ایک فوج کے ساتھ روانہ کیا اور پھر یمن کے داخلی باغیوں کے تعاون سے بُسر رضی اللہ عنہ کو یمن پر قابض ہونے کا موقع مل گیا، لیکن یہ قبضہ انتہائی مختصر رہا۔ [12]اور تھوڑے ہی عرصہ میں علی رضی اللہ عنہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |