اور اس کے نتیجہ میں بھڑکی ہوئی آگ کو صحابہ کرام بجھانے میں لگ گئے، تو انھیں حالات میں ان بدعقیدہ لوگوں کو سانس لینے کا موقع مل گیا اور ان کے دلوں میں یہ عقائد پختہ ہوگئے، تاہم چند مخصوص افراد کی ایک چھوٹی سی جماعت تک یہ لوگ محدود رہے، ابھی معاشرہ پر ان کی کوئی گرفت نہ تھی اور شہادت عثمان کی وجہ سے ان کے جھانسہ میں آجانے والے اور بغاوت کرنے والے چند لوگوں کے علاوہ کوئی ان کی بات پر کان دھرنے والا نہ تھا۔ طبری لکھتے ہیں: ’’ابن السوداء اپنے ہم خیالوں سے کہنے لگا، اے لوگو! تمھاری عزت عوام سے مل جل کر رہنے میں ہے، لہٰذا ان پر اپنی حقیقت ظاہر نہ کرو۔‘‘[1] آپ محسوس کرسکتے ہیں کہ کوئی بھی شان و قوت والا آدمی ایسا نہیں کہہ سکتا، پس ہرچند کہ یہ لوگ مختصر تھے، لیکن صحابہ کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکانے میں ان سبائیوں اور قاتلین عثمان کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا، بلکہ محققین کے نزدیک یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ اس کے ثبوت میں لکھتے ہیں: ’’اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ لوگ اکٹھا ہوئے، قتال نہیں کیا اور نہ ہی جنگ میں شریک ہوئے، جب رات کی تاریکی نے پردہ ڈالا تو قاتلین عثمان کو اندازہ ہوا کہ ہم بہرحال دھر لیے جائیں گے اورکیفر کردار تک پہنچیں گے، اس لیے خفیہ طریقہ سے طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے لشکر میں رات گزاری اور انھیں میں تلواریں چلا دیں اور پھر چاروناچار ان لوگوں نے اپنی جانوں کا دفاع کیا۔‘‘ [2] 3۔ تیسرا مرحلہ: تیسرا مرحلہ ایک قیادت کے ماتحت ان کی منظم جماعت اور قوت کے اظہار کا ہے، جس کا آغاز حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے قاتلین و مخالفین سے انتقام لینے سے ہوتا ہے۔ مؤرخ طبری رحمۃ اللہ علیہ 64ھ کے واقعات میں لکھتے ہیں کہ اس سال کوفہ میں شیعہ لوگ متحرک ہوئے اور 65ھ میں اہل شام سے حسین بن علی کے خون کا بدلہ لینے کی غرض سے نخیلہ میں ایک کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سلسلہ میں خط و کتابت کی۔[3] جس کا آغاز طبری کے بقول عبداللہ بن عوف بن احمر کی روایت سے اس طرح ہوا کہ جب حسین بن علی رضی اللہ عنہما شہید کردیے گئے اور ابن زیاد نخیلہ سے اپنے لشکر میں واپس چلا گیا اور پھر وہاں سے کوفہ پہنچا تو مدعیان شیعیت نے آپس میں ایک دوسرے کو بہت لعن طعن کیا، اور سمجھ گئے کہ حسین کو مدد دینے کے وعدہ پر اپنے یہاں بلا کر اور ان کی بات نہ مان کر، پھر بے یار و مددگار ہماری ہی جماعت میں ان کا قتل ہوجانا، یقینا ہماری بہت بڑی غلطی ہے اور ہمارے کپڑوں پر آپ کی شہادت کے جو بدنما داغ لگ چکے ہیں وہ قاتلین حسین کو قتل کردینے یا خود اسی راہ میں مرمٹنے کے بعد ہی صاف ہوسکتے ہیں، اس لیے انھوں نے فوراً کوفہ کے پانچ سرداران شیعہ سے رابطہ قائم کیا، وہ پانچوں یہ تھے: (1) سلیمان بن صُرد الخزاعی انھیں جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت حاصل رہی ہے۔ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |