ملبوس دیکھا، آپ کے ہاتھ میں کوڑا تھا، جیسے کوئی گنوار دیہاتی ہو، آپ بازار گئے اور تین درہم میں ایک کپڑا خریدتے ہوئے دوکاندار سے مول بھاؤ کرنے لگے، دوکاندار نے آپ کوپہچان لیا، آپ کو جب یہ احساس ہوا کہ اس نے مجھے پہچان لیا ہے تواس سے کچھ نہ خریدا اور دوسرے دوکاندار کے پاس پہنچے، اتفاق سے اس نے بھی پہچان لیا اور آپ نے اس سے بھی کچھ نہ خریدا، پھر آپ ایک نوعمر لڑکے کی دوکان پر گئے اور تین درہم میں اس سے قمیص خریدی، پھر جب لڑکے کا باپ آیا تو اس نے اپنے باپ کو قمیص بیچنے کی خبردی، باپ نے ایک درہم لیا اور علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے امیر المومنین! یہ ایک درہم رکھ لیجئے۔ آپ نے اس سے پوچھا: یہ کیسا درہم ہے؟ اس نے کہا: آپ نے جو قمیص خریدی وہ دو درہم کی ہے۔ آپ نے فرمایا: لڑکے نے سامان میری رضامندی سے بیچا تھا اور رقم اپنی رضامندی سے لی تھی۔[1] یہ ہے امیرالمومنین علی بن ابی طالب کی زاہدانہ زندگی کی ایک زندہ جاوید مثال کہ موٹا لباس اور عام پوشاک زیب تن کرنے کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آپ ایک عام دیہاتی ہوں اور جب نیا کپڑا خریدتے ہیں تو نہایت سستا اور ادنیٰ نوعیت کا خرید کرتے ہیں حالانکہ اس وقت دنیا کے عظیم ترین حکمران یعنی تمام مسلمانوں کے خلیفہ ہیں، اور مسلمانوں کے مصالح و مفاد کے ذمہ دار نیز ان کے معاملات کے لیے اپنی زندگی وقف کردینے کی وجہ سے آپ کو حق پہنچتا ہے کہ بیت المال اور مال فے جیسے ملکی آمدنی سے اپنی ضروریات پوری کرلیں، لیکن آپ ایسا نہیں کرتے۔ بھلا یہ آپ کی زہد و تواضع نہیں تو اور کیا ہے؟؟ اسی واقعہ میں ورع و تقویٰ کی ایک دوسری مثال یہ دیکھئے کہ جو لوگ آپ کو پہچان گئے تھے ان سے کپڑا نہیں خریدا کہ کہیں یہ لوگ میرے منصب کی رعایت اور دباؤ میں نہ آجائیں، آپ نہیں جانتے تھے کہ ذاتی مفاد کی خاطر اپنے عظیم ترین منصب کو استعمال کریں، یقینا ورع اور تقویٰ کے میدانوں میں یہ آپ کی بڑی دقیق رسی ہے، گویا آپ اور آپ جیسے دیگر خدا ترسوں کے نزدیک خلافت کارثواب کا ایک ذریعہ تھی اور جب خلیفہ، خلافت کا منصب سنبھالتے ہوئے عدل پروربھی ہو تو ان سات خوش بختوں میں سے ایک ہوگا جسے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا سایہ عطا کرے گا، چنانچہ آپ اس نیک عمل کو دنیوی مفاد سے پراگندہ نہیں کرنا چاہتے تھے، مبادا جو عمل باعث اجر ہے وہ باعث گناہ ہوجائے، گویا آپ کا یہ عمل بعد میں اُمت مسلمہ کے لیے اعلیٰ کردار کا بے نظیر نمونہ تھا۔[2] خشوع قلب اور اقتدائے مومن: عمرو بن قیس کا بیان ہے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا، آپ پیوند لگی ہوئی قمیص کیوں پہنتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا: اس سے دل میں خدا ترسی رہتی ہے اور مومن اس کی پیروی کرتا ہے۔[3] یہ واقعہ بھی علی رضی اللہ عنہ کی زاہدانہ زندگی، نفس کشی، اور زہد ورع کی زندگی پر مسلمانوں کی تربیت کے لیے آپ کی ایک نادر اور قابل تقلید مثال ہے۔ آپ نے پیوندشدہ قمیص پہننے کا سبب بتاتے ہوئے دو اہم مقاصد کی طرف نشان دہی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |