لوگوں کو رغبت دلاتے ہوئے کہا: مجھ سے پوچھو مجھ سے پوچھو، اور مجھ سے اللہ کی کتاب کے بارے میں پوچھو، اللہ کی قسم! میں آیات کے بارے میں جانتا ہوں کہ کون سی آیت رات میں اتری اور کون سی دن میں۔[1] اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ کی قسم! جتنی آیات اتری ہیں میں سب کے بارے میں جانتا ہوں کہ کس کے بارے میں اور کہاں اتری ہیں۔[2] 9۔ عام حکم کی تخصیص: ’’عام‘‘ کا اطلاق اس لفظ پر ہوتاہے جو ایک کیفیت کے تمام معانی پر ایک ہی حالت میں ایک ساتھ بلا کسی حصر کے دلالت کرے۔[3] اور کسی لفظ کو عموم پر محمول کرنے کا قاعدہ یہ ہے کہ جب تک کوئی تخصیص نہ وارد ہو یہ لفظ اپنے عموم پر باقی رہتاہے، کبھی کبھار شریعت کی طرف سے ایسا حکم آجاتاہے جو عمومی حکم کو صرف بعض افراد تک محدود کردیتا ہے، جسے ’’عام حکم کی تخصیص‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [4] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے ایسے آثار ملتے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ’’عام کی تخصیص‘‘ کے قائل تھے، چنانچہ آپ سے ایسی دو لونڈیوں کے بارے میں پوچھا گیا جو حقیقی بہنیں ہیں اور ایک ہی مالک کی ملکیت میں ہیں، اس نے ایک سے وطی کی، پھر دوسرے سے بھی وطی کرنا چاہتا ہے، آپ نے فرمایا: نہیں۔[5] ابن الکواء سے روایت ہے کہ انھوں نے علی رضی اللہ عنہ سے دو بہنوں کو ایک ساتھ لونڈی کی حیثیت سے رکھ کر ان سے مباشرت کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے جواب دیا: ایک آیت نے حرام کیا ہے، اور ایک آیت نے حلال کیا ہے، لیکن نہ میں اسے کرنے والا ہوں او رنہ ہی میری آل اولاد۔[6] علی رضی اللہ عنہ کے استنباط کی نوعیت یہ تھی کہ جس آیت نے دونوں کو ایک ساتھ رکھنے کو حرام کیاہے وہ یہ ہے: وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ (النسائ:23) ’’اور یہ کہ تم دو بہنوں کو جمع کرو۔‘‘ جس آیت سے اس کی حلت ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے: إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ﴿٦﴾ (المومنون:6) ’’مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘ مذکورہ دونوں آیات کے درمیان عموم و خصوص کی نسبت ہے، جس کی توضیح یہ ہے کہ دوسری آیت میں ملکیت کی |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |