Maktaba Wahhabi

120 - 263
قائم ہوجائے تو پھر انہیں اسلام کی صداقت کا یقین ہوجائے گا۔ اور وہ اسلام قبول کرلیں گے۔ وذلک لان الیهود کانوا علی مذهب التشبیه وکانوا یجوزون علی اللّٰه لمجئ ولذهاب وکانوا یقولون انه تعالیٰ تجلی لموسی(علیه السلام)علی الطور فی ظلل من الغمام[1] اور تورات میں ہے۔’’ دیکھو خداوند ایک تیز رو بادل پر سوار ہو کر مصر میں آتا ہے اور مصر کے بت اس کے حضور لرزاں ہوں گے۔‘‘ اہل سنت کے نزدیک اللہ تعالیٰ نہ جسم ہے اور نہ کسی جسم کے مشابہ ہے۔ اور آنا جانا جسم کی صفات میں سے ہے اس لیے اللہ تعالیٰ آمدورفت سے منزہ اور پاک ہے۔ اس لیے بہت سے مفسرین نے اس آیت کو متشابہات میں قرار دیا ہے اور اس کی تفسیر سے سکوت اختیار کیا ہے۔ اور بعض نے یہاں مضاف محذوف مانا ہے یعنی امر اللہ یا عذاب اللہ۔ جو توجیہہ ہم نے اوپر لکھی ہے اسے امام رازی رحمہ اللہ نے ترجیح دی ہے۔ وَقُضِيَ الْاَمْرُ۔ اور بندوں کے حساب و کتاب کا معاملہ طے ہوجائے اور نیک وبد اپنے اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔ ای اتم امرالعباد وحسابهم فاثیب الطائع وعوقب العاصی[2]وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۔ اور تمام کاموں کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہے۔[3] اللہ تعالیٰ کے بادلوں کے سائے میں آنے کی توجیہ اور فرشتوں کے آنے کے وقت کی تعیین از سعیدی رحمہ اللہ: ’’إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللّٰهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ‘‘: اس آیت کا ظاہر معنی یہ ہے کہ مشرکین اس کا انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ اُن کے پاس بادلوں کے سائبانوں میں آجائے۔سَلَف صالحین اس قسم کی آیات میں بحث نہیں کرتے تھے‘ امام احمد بن حنبل سے منقول ہے‘انہوں نے کہا:اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کا حکم ہے یا اللہ کا عذاب۔’’ظلل‘‘کا لفظ ظلۃ کی جمع ہے جس کا معنی سائبان ہے اور ’’الغمام‘‘اس بادل کو کہتے ہیں جس میں پانی نہ ہو۔
Flag Counter