Maktaba Wahhabi

242 - 1201
واضح رہے کہ یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کے معارض نہیں ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آل محمد اس مال میں سے کھائیں گے جو اللہ کا مال ہے پس کھانے کے سوا اور کوئی تصرف اس مال میں نہیں کریں گے اور میں تو اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ میں کوئی تبدیلی وتغیر نہیں کروں گا، آپ کے زمانہ میں اس کی جو کیفیت تھی اسی پر باقی رکھوں گا اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے میں بھی وہی کروں گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس میں کچھ دینے سے انکار کردیا، تو فاطمہ رضی اللہ عنہا اس وجہ سے آپ پر ناراض ہوگئیں، اور آپ سے کلام کرنا چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔[1] مذکورہ دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لیے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے علم کے مطابق یہ واقعہ بیان کیا ہے جب کہ شعبی کی روایت میں اس سے زیادہ معلومات ہیں، اس میں ابوبکر کی زیارت اور فاطمہ سے گفتگو نیز ان کی رضامندی کا صراحتاً ثبوت ہے، پس عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں نفی اورمزید معلومات سے خاموشی ہے، جب کہ شعبی کی روایت میں اثبات و مزید معلومات ہیں، لہٰذا علمائے اصول کے فن وضابطہ کے لحاظ سے اثبات کو نفی پر تقدم حاصل ہے۔ ایسا اس لیے کہ ممکن ہے ثابت کرنے والے کو ایسی بعض معلومات کا زیادہ علم ہو جو نفی کرنے والے کو نہیں ہے، خاص طور سے اس طرح کے مسئلہ میں، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی عیادت کے لیے جانا کوئی ایسا عظیم حادثہ نہ تھا کہ جس کا لوگوں میں چرچا ہونا ضروری ہو اور سب لوگ اس کو جان ہی لیں، بلکہ یہ ایک عام سی بات تھی جو موقع پرنہ رہنے والوں سے پوشیدہ ہوسکتی ہے، اور جو موقع پر حاضر تھے انھوں نے اس وقت اس پرخاص توجہ اس لیے نہ دی کہ اس کا ذکر کرنے کی کوئی اہم ضرورت نہ تھی، بہرحال علمائے اسلام ومحققین کا ماننا ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے قصد اً ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قطع کلامی کبھی نہ کی، آپ کی ذات اس سے پاک صاف ہے، اس لیے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ کسی مسلمان سے قطع کلامی کو حرام قرار دیا ہے، سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو اس لیے نہیں کی کہ انھیں ایسی کوئی ضرورت پیش نہ آئی۔ [2] امام قرطبی، عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی تشریح کے سیاق میں لکھتے ہیں: فاطمہ رضی اللہ عنہا اپنی خانگی مشغولیت اور خانہ نشینی کی وجہ سے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ دنوں تک ملاقات نہیں کرسکیں، اسی چیز کو راویوں نے ’’ہجران‘‘ قطع کلامی سے تعبیر کردیا، ورنہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَّھْجُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَلَاثٍ۔))[3] ’’کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کوتین دن سے زیادہ چھوڑ دے۔‘‘ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بخوبی جانتی تھیں کہ تعلقات کی دنیا میں کیا حلال اور کیا حرام ہے، بھلا ان سے یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کریں گی، جب کہ وہ جگر گوشہ رسول اور خواتین جنت کی سردار ہیں۔ [4]
Flag Counter