پر وضو واجب ہے۔ بہرحال آپ کی علمی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں، اپنے ارد گرد حفاظ قرآن اور علمائے شریعت کی بھاری تعداد دیکھ کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں، صرف بصرہ میں آپ کے شاگردوں کی تعداد تین سو سے زائد تھی، جب عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد حکومت میں اپنے گورنران ریاست کے پاس یہ فرمان جاری کیا تھا کہ میرے پاس اپنے یہاں کے حفاظ قرآن کے ناموں کی فہرست روانہ کرو تاکہ ان کو اعزاز بخشا جائے اوران کے وظائف میں اضافہ کردیا جائے تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے لکھا تھا کہ میرے پاس حفاظ قرآن کی تعداد تین سو سے کچھ زائد ہے۔[1] ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے صرف قرآن کی تعلیم و تعلّم پر اکتفا نہ کیا بلکہ سنت نبوی کی تعلیم و روایت کا مکمل اہتمام کیا، آپ سے متعدد صحابہ اور کبار تابعین نے احادیث روایت کی ہیں۔ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: آپ سے بریدہ بن الحصیب، ابوامامہ الباہلی، ابوسعید الخدری، انس بن مالک، طارق بن شہاب، سعید بن مسیب، اسود بن یزید، ابووائل شقیق بن سلمہ، ابوعثمان النہدی اور بہت سارے لوگوں نے احادیث روایت کی ہیں۔ رحمۃ اللہ علیہم اجمعین[2] آپ سنت نبوی کی سختی سے پابندی کرنے والے تھے، آپ کی طرز زندگی، اور وفات کے وقت اپنی اولاد کو نصیحت اس بات کی دلیل ہے کہ آپ سنت پر مرمٹنے کے سخت حریص تھے، لیکن کبار صحابہ کی طرح احادیث کی روایت میں کثرت سے کام نہ لیا، کیونکہ یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرنے میں بہت محتاط ہوتے تھے۔ بصرہ میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ آپ کے قریبی اور معتمد خاص تھے، انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: ایک مرتبہ ہم لوگ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر پر تھے، لوگ دنیا کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے، ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا: اے انس! یہ لوگ اپنی زبان سے چمڑی کاٹ ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔ آؤ ہم لوگ کچھ دیر اپنے رب کو یاد کرلیں، پھر آپ پوچھنے لگے، کس چیز نے انھیں طلب آخرت سے سست کردیاہے؟ میں نے کہا: دنیا، شیطان اورشہوتوں نے۔ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ دنیا جلدی کردی گئی ہے اور آخرت آنکھوں سے غائب کردی گئی ہے۔ سنو! اللہ کی قسم اگر یہ لوگ آخرت کو آنکھوں سے دیکھ لیں تو اس سے انحراف نہ کریں اور نہ ہٹیں۔[3] انس رضی اللہ عنہ پر کامل اعتماد ہی کی بنا پر ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ آپ کو امیرالمومنین عمر رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا پیغامبر بنا کر بھیجتے تھے، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے مجھے بصرہ سے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، توآپ نے مجھ سے لوگوں کے حالات معلوم کیے اورتستر فتح ہونے کے بعدابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے آپ کو وہاں کے قیدیوں اور غنائم کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، چنانچہ وہ وہاں کے حاکم ہرمزان کو قید کرکے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لائے۔[4] 3۔عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کے عہد خلافت میں ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بحیثیت گورنر: سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بصرہ کے مشہور ترین گورنروں میں شمار ہوتے |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |