جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے امامت علی کا اقرار کرلیا تھا۔ اس تعداد کا اضافہ اس لیے ہے تاکہ ان کی مجموعی تعداد سات ہو جائے، اس سے زیادہ تعداد نہیں ثابت کرتے۔ مذکورہ سطروں کے جملہ مشمولات شیعہ امامیہ کی معتمد ترین کتب میں موجود ہیں، ان کی سب سے پہلے منظر عام پر آنے والی کتاب ’’کتاب سلیم بن قیس‘‘ میں تحریر کیا۔[1] پھر ان کی بعد میں آنے والی کتب مسلسل اسے لکھتی رہیں اور عام کرتی رہیں، جن میں ان کی چار معتمد کتب میں ’’الکافی‘‘ اور ’’رجال الکشی‘‘[2]سر فہرست ہیں۔ ان کے علاوہ ان کے دیگر مصادر میں بھی یہ چیز دیکھی جاسکتی ہے۔[3] صحابہ کے بارے میں روافض شیعہ کا کیا موقف ہے اس پر تفصیلی گفتگو ان شاء اللہ آئندہ صفحات میں ہوگی۔ اہل بیت رحمۃ اللہ علیہم کی تکفیر: جو شیعی روایات اس منفرد مثالی معاشرہ کے زیادہ سے زیادہ سات افراد کو چھوڑ کر بقیہ پر ارتداد کا حکم لگاتی ہیں، اور ان ساتوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے کسی فرد کا تذکرہ نہیں ہے ان کی صرف ایک روایت میں صرف علی رضی اللہ عنہ کا نام ہے اور وہ روایت فضیل بن یسار سے بسند ابوجعفر مروی ہے کہ علی، مقداد، سلمان اور ابوذر، ان چاروں کے علاوہ سارے لوگ اہل جاہلیت ہیں۔ میں نے کہا: اور عمار؟ تو کہنے لگے: اگر تم ان لوگوں کو مراد لیتے ہو جن کے دلوں میں کچھ بھی (نفاق) داخل نہیں ہوا تو وہ صرف یہ تینوں ہیں۔[4] سویہ تمام روایات تمام صحابہ اوراہل بیت نبی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اور قرابت داروں پر ارتداد کا حکم لگاتی ہیں، اس کے باوجود ان روایات کا گھڑنے والا آل بیت رسول سے محبت کا دعوے دار ہے۔ تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تشیع اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خبیث ترین مقاصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک ڈھال ہے اور ان روایات کے گھڑنے والے لوگ تمام صحابہ کرام اور قرابتدارانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں۔[5] ان روافض نے خاص طور سے آل بیت نبی کے چند مخصوص افراد جیسا کہ آپ کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کی تکفیر اوران پر طعن و تشنیع کی اوریہاں تک کہا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان انھیں کے بارے میں نازل ہوا: وَمَن كَانَ فِي هَـٰذِهِ أَعْمَىٰ فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَىٰ وَأَضَلُّ سَبِيلًا ﴿٧٢﴾ (الاسرائ: 72) ’’اور جو اس میں اندھا رہا تو وہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا اور راستے سے بہت زیادہ بھٹکا ہوا ہوگا۔‘‘ اسی طرح آپ کے صاحبزادے، امت مسلمہ کے عالم کبیر اور سب سے بڑے مفسر قرآن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو خاص طور سے لعن طعن کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ تو بہت ہی کم عقل اور نادان تھے۔[6] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |