Maktaba Wahhabi

658 - 1201
وشبہات سے بالکل پاک وصاف ہے، کسی صحابی کو اس پر اعتراض نہیں ہے، تو مختلف قبائل کے بے شمار بصری باشندے اس تحریک میں شامل ہوگئے۔ ادھر زبیر رضی اللہ عنہ نے سرداران تمیم کے ایک نامور سردار احنف بن قیس السعدی التمیمی کو بلا بھیجا، اور ان سے دم عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص طلبی کے لیے مدد کی درخواست کی، اس لیے کہ احنف کا فیصلہ ان کے قبیلہ والوں کے لیے قابل تسلیم ہوتا تھا۔ احنف بن قیس اس صورتحال کی منظر کشی اس طرح کرتے ہیں: آج سے زیادہ پریشان کن معاملہ مجھے کبھی پیش نہ آیا تھا، میں نے کہا ان لوگوں کا ساتھ نہ دینا جن کے ساتھ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور حواری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں میرے لیے ناقابل برداشت ہے۔[1]لیکن پھر کنارہ کش رہنے کو ترجیح دی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے چھ افراد کنارہ کش ہوگئے، جب کہ ان کے قبیلہ کی اکثریت نے ان کی بات نہ مانی اور طلحہ، زبیر اور ام المومنین رضی اللہ عنہم سے آملے۔[2] امام زہری کے بقول بصرہ کی اکثریت نے ان لوگوں کا ساتھ دیا اس طرح طلحہ، زبیر اور عائشہ رضی اللہ عنہم جس معاملہ کو لے کر نکلے تھے، اس کی حمایت میں نئے معاونین شامل ہوگئے۔ بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے معاملہ کی اصلاح اور حالات کو قابو میں کرنے کے لیے بھر پور جدوجہد کی، لیکن معاملات آپ کے ہاتھ سے نکل چکے تھے اور حالات اس طرح بگڑ گئے تھے کہ کچھ لوگ بصرہ کے بارے میں کہنے لگے کہ شام والوں کا ایک ٹکڑا ہمارے درمیان آگرا ہے۔[3] پھر ایک ایسا وقت آیا بھی جس میں اہل بصرہ کی مدد سے معاویہ رضی اللہ عنہ نے بصرہ پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی کی۔[4] واضح رہے کہ بعض غیر معتمدتاریخی مصادر بصرہ کے گورنر عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے اس موقع پر حکیم بن جبلہ کو لڑائی چھیڑنے کی اجازت دے دی تھی۔ یہ بات قطعاً درست نہیں ہے، صحیح ومعتبر مصادر میں یہ بات کہیں نہیں ملتی۔ [5] حکیم بن جبلہ اور اس کے ہنگامہ پسند ساتھیوں کا قتل: جب عائشہ رضی اللہ عنہا اہل بصرہ کے سامنے تقریر کر کے فارغ ہوئیں تو حکیم بن جبلہ آگے بڑھا اور لڑائی چھیڑ دی، یہ دیکھ کر عائشہ، طلحہ، اور زبیر رضی اللہ عنہم کے لشکر نے بھی اپنے نیزوں کو سیدھا کرلیا، لیکن قتال سے باز رہے کہ شاید اس کے ساتھی لڑائی سے رک جائیں۔ لیکن ایسا ہوا نہیں، وہ لڑائی پر تلے رہے اور بے دریغ ہتھیار چلانے لگے۔ مجبوراً عائشہ رضی اللہ عنہا کی جماعت کو بھی لڑنا پڑا۔
Flag Counter