امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف سے پاکباز انسانوں کے اوصاف، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نفلی عبادات اور صحابہ کرام کے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ: (1) پاکباز انسانوں کے اوصاف: ایک مرتبہ امیر المومنین سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پاکباز بندوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’پاکباز لوگ وہ ہیں کہ جب کوئی بھلائی و نیکی کرتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں۔ جب گناہ سرزد ہوجاتے ہیں تو استغفار کرتے ہیں، جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور جب غصہ ہوتے ہیں تو درگزر کردیتے ہیں۔‘‘[1] اور فرمایا: ’’جان لو! اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں جن کے عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ جنتیوں کو ہمیشہ جنت میں رہتے ہوئے اور جہنمیوں کو جہنم میں عذاب پاتے ہوئے مشاہدہ کرچکے ہیں،… وہ بے ضرر ہیں، ان کے دل رنجیدہ رہتے ہیں، وہ پاک طینت ہیں ان کی ضروریات نہایت مختصر ہیں، انھوں نے آخرت کی طویل راحت کے لیے چند روزہ مصائب پر صبر کرلیا ہے، اگر تم ان کو رات میں دیکھو گے تو ان کے قدموں کو صف بندی میں پاؤ گے اور ان کے آنسو ان کے رخسار پر بہ رہے ہوں گے، اپنی گردنوں کو آزاد کرانے کے لیے وہ اللہ سے گڑ گڑاتے ہیں، اور دن میں انھیں صاحب علم و فضل، بردبار، نیکوکار اور پرہیزگار پاؤ گے… کوئی دیکھنے والا جب انھیں دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ یہ تو بیمار ہیں حالانکہ انھیں کوئی بیماری نہیں ہوتی، انھیں امر عظیم یعنی آخرت کی فکر لاحق ہوتی ہے۔‘‘ [2] اور ایک موقع پر فرمایا: ’’مومن کو چاہیے کہ اس کی نگاہ، نگاہ عبرت ہو، اس کی خاموشی تدبر ہو اور اس کا کلام حکمت ہو۔‘‘[3] اور فرمایا: ’’خوش خبری ہے ہر اس بندہ کے لیے جو گم نام رہا، اس نے سب کو پہچانا، لیکن اسے کسی نے نہیں پہچانا، اس نے اللہ کو اس کی رضا مندی سے پہچانا، یہی گم نام و خاموش طبع لوگ ہدایت کے چراغ ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے سر سے تمام مہلک فتنوں کو ٹالتا رہتا ہے، وہ انھیں اپنی رحمت کے سائے میں رکھے گا۔ وہ پیٹ کے ہلکے، چغل خور، سنگ دل اور ریا کار نہیں ہوتے۔‘‘[4] آپ کے اس قول میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی تاثیر صاف صاف نظر آرہی ہے کہ |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |