یمن کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے قبضہ سے آزاد کرانے میں کامیاب ہوگئے اور عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دوبارہ وہاں کا گورنر بنا کر بھیج دیا اور پھر علی رضی اللہ عنہ کی شہادت تک یہی وہاں کے گورنر رہے۔[1] بعض روایات میں ہے کہ بسر نے یمن چھوڑتے ہوئے عبید اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے دو بیٹوں اور علی رضی اللہ عنہ کے چند حامیوں کو قتل کردیا تھا، پھر شام واپس آئے تھے، جس کے الزامی جواب میں امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے جاریہ بن قدامہ السعدی کو وہاں روانہ کیا تھا اورانھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کے چند محبین اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مویدین کو قتل کیا تھا۔[2] حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ روایت اگرچہ سیرت نگاروں کے یہاں مشہور ہے، لیکن میرے نزدیک اس کی صحت میں تامل ہے۔[3] حقیقت واقعہ بھی اسی کی تائید کرتی ہے کیونکہ اس دور میں کسی کے بدلہ میں بے قصوروں کے قتل کاکوئی تصور نہ تھا، حتیٰ کہ جنگ جمل اور صفین میں جب کہ طرفین کی طرف سے جنگ جاری تھی، کسی بے قصور کے ساتھ ایسا نہیں ہوا، پھر بھلا تحکیم یعنی معاہدۂ صلح کے مرحلہ میں بچوں اور دیگر بے قصوروں کو کیوں کر قتل کیا گیا ہوگا، لہٰذا ایسی اوچھی حرکت جو کہ مسلمانوں کے دین اور اقدار و روایات کے سراسر خلاف ہے اسے یونہی قبول نہیں کیا جاسکتا۔[4] شام: سیّدنا عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما کے دور ہی سے معاویہ رضی اللہ عنہ شام کے گورنر تھے، جب علی رضی اللہ عنہ نے منصب خلافت سنبھالا تو آپ نے انھیں وہاں سے معزول کرکے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو شام کا گورنر بنانا چاہا، لیکن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی قرابت داری اور سسرالی رشتہ کا حوالہ دے کر یہ ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا۔[5] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے بھی ان کی معذرت قبول کرلی اور زبردستی نہیں کی، اور ان کے شام نہ جانے کے مطالبہ کی منظوری دے دی۔ جن روایات سے یہ معلوم ہوتاہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے انکار کرنے اور علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دینے پر آپ نے انھیں اپنے غصہ کا نشانہ بنایا، تو وہ روایات تحریف شدہ اور جھوٹی ہیں۔[6] اس معاملہ میں زیادہ سے زیادہ جو بات پیش آئی تھی امام ذہبی نے اسے سفیان بن عیینہ کی سند سے عمر بن نافع سے روایت کیا ہے، جو اپنے والد نافع کے واسطہ سے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اس طرح بیان کیا ہے کہ مجھے علی رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا اور کہا: اے ابوعبدالرحمن شام والے تمہیں معزز اور تمھاری بات مانتے ہیں، اس لیے تم وہاں چلے جاؤ، میں تمھیں وہاں کا امیر بناتا ہوں۔ تو میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو اللہ کا واسطہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قرابت و صحبت کے حوالہ سے چاہتا ہوں کہ مجھے اس کے لیے معاف فرمائیں، لیکن علی رضی اللہ عنہ نہیں مانے، تو میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے سفارش کروائی پھر بھی آپ بضد |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |