رہے، چنانچہ میں راتوں رات مکہ چلا گیا۔[1] یہ روایت بالکل واضح دلیل ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خلافت علی پر بیعت کی تھی اور آپ کی اطاعت کے قائل تھے، اس لیے کہ اگر بیعت نہ کی ہوتی تو علی رضی اللہ عنہ آپ کو کیسے گورنر بناتے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ’’الاستیعاب‘‘ میں ابوبکر بن ابوالجہم کی سند سے لکھتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی جان کنی کے وقت فرما رہے تھے: مجھے ایک چیز کے علاوہ کسی پر افسوس نہیں ہے، وہ یہ کہ علی رضی اللہ عنہما کے باغیوں کے خلاف میں لڑ نہ سکا۔[2] یہ روایت بھی بتاتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر بیعت کی تھی، اور علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے باغیوں کے خلاف جنگ میں شرکت نہ کرنے پر آپ کو بعد میں ندامت ہوئی، اس لیے کہ آپ اس فتنہ سے الگ ہوگئے تھے اور کسی کا ساتھ نہ دیا تھا، لہٰذا اگر علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر آپ نے بیعت نہ کی ہوتی تو اس پر اس سے کہیں زیادہ ندامت و افسوس کا اظہار کرتے اور اپنی عدم مبایعت کی صراحت کرتے، کیونکہ امام المسلمین کی امامت پر بیعت کرنا واجب ہے، اور اس سے پیچھے رہنے والا خود ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کی روشنی میں شدید وعید کا مستحق ہوتاہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ((مَنْ مَّاتَ وَلَیْسَ فِیْ عُنَقِہٖ بَیْعَۃٌ مَاتَ مِیْتَۃً جَاہِلِیَّۃً۔))[3] ’’جس شخص کی موت اس حال میں ہو کہ اس نے (امام المسلمین) کی بیعت نہ کی ہو وہ جاہلیت کی موت مرا۔‘‘ نیز بیعت کا معاملہ علی رضی اللہ عنہ کی معیت میں ان کے باغیوں سے جنگ کرنے سے مختلف ہے، کیونکہ اس جنگ میں علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینا صحابہ کے درمیان مختلف فیہ رہا، حتیٰ کہ بعض صحابہ نے اسے فتنہ قرار دیتے ہوئے خود کو اس سے الگ رکھا، لہٰذا یہ کیسے تصور کیا جاسکتاہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک مختلف فیہ مسئلہ یعنی جنگ میں علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دینے پر ندامت و افسوس کا اظہار کریں اور ایک واجبی و متفق علیہ حکم کے چھوڑنے پر انھیں کوئی ندامت نہ ہو۔ بھلا وہ اس بیعت سے کیوں کر انکار کرسکتے تھے جب کہ اس کے بارے میں سخت شرعی وعید موجود تھی، لہٰذا ان مؤرخین کا خیال یکسر باطل ہے جو علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر ابن عمر رضی اللہ عنہما کی عدم بیعت کے قائل ہیں اوریہ ثابت بھی کیا جاچکا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نہ صرف بیعت کرنے والوں میں سے تھے بلکہ آپ علی رضی اللہ عنہ کے ان مقربین میں سے تھے، جنھیں علی رضی اللہ عنہ گورنر بنانے کے خواہاں تھے، کیونکہ اپنے لیے ان کے اندر پورے اخلاص اور خیرخواہی کا جذبہ محسوس کرتے تھے[4] بہرحال جب ابن عمر رضی اللہ عنہما نے شام کی گورنری قبول کرنے سے معذرت پیش کی تو امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے ان کے بدلہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو بھیجا، لیکن ابھی شام پہنچنے ہی والے تھے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے شہ سوار دستہ نے آپ کو پکڑ لیا اور کہا: اگر تمہیں عثمان رضی اللہ عنہ نے بھیجا ہے تو خوش آمدید ہے اور اگر کسی دوسرے نے بھیجا ہے تو واپس چلے جاؤ۔[5] |
Book Name | سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے |
Writer | ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی |
Publisher | الفرقان ٹرسٹ خان گڑھ ضلع مظفر گڑھ پاکستان |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ شمیم احمد خلیل السلفی |
Volume | |
Number of Pages | 1202 |
Introduction |