Maktaba Wahhabi

97 - 1201
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کو دیگر خطۂ ارضی میں پھیلا سکیں گویا ان کی نگاہ میں یہ واقعہ ہرحال میں اسلام کے مفاد اور اس کی مصلحت سے جڑا ہوا تھا۔ ٭ شب ہجرت کے اُن پُرخطر اندیشوں کے بیچ علی رضی اللہ عنہ کا بستر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر سوئے رہنا، اللہ کے قضاء و قدر پر ان کے کامل و گہرے ایمان ویقین کی دلیل ہے، بلاشبہ آپ کو اس فرمان الٰہی پر کامل ایمان تھا: قُل لَّن يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّـهُ لَنَا هُوَ مَوْلَانَا ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿٥١﴾ (التوبۃ:51) ’’کہہ دے ہمیں ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ ایمان والے بھروسا کریں۔‘‘ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہجرت کے اس پُرخطر کردار کو نبھانے کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی رضی اللہ عنہ پر کامل و پختہ اعتماد تھا اور ان کے سلسلہ میں اس بات سے بالکل مطمئن تھے کہ انھیں میں یہ مہم نبھانے کی وہ بے نظیر صلاحیت ہے جو دوسروں میں نہیں ہے، جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے بستر پر سونے کے لیے کہا تو بلاتردد انھوں نے تعمیلِ حکم پر لبیک کہا، حالانکہ آپ کو خوب معلوم تھا کہ اس کے پیچھے مشرکین اور نوجوانان قریش کی طرف سے موت کے پیغام کے سوا کچھ نہیں، لیکن آپ نے انجام کی قطعاً پرواہ نہ کی، اس لیے کہ اس فدائیت کے بدلے شرافت و سعادت کا ایسا لاثانی تمغہ ملنے والا تھا جسے کسی اور راستہ سے حاصل کرنا مشکل تھا۔[1] ہجرت: جب صبح ہوئی تو علی رضی اللہ عنہ اپنے بستر سے اٹھے، محاصرہ کرنے والوں نے آپ کو پہچان لیا اور انھیں یقین ہوگیا کہ رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خود کو بچا لے گئے، تو انھو ں نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تمھارا ساتھی کہاں گیا؟ آپ نے جواب دیا: میں نہیں جانتا، کیا میں ان کی نگرانی کر رہا تھا؟ تم لوگوں نے انھیں نکل جانے کو کہا تو وہ نکل گئے۔ علی رضی اللہ عنہ کے اس جرأت مندانہ جواب سے وہ سب سکتے میں آگئے او رکڑی نگرانی کے باوجود درمیان سے نبی کے نکل جانے پر غصے سے تلملا اٹھے، ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا تھا، وہ آپ کو دیکھ نہ سکے تھے، بالآخرعلی رضی اللہ عنہ کو جھڑکنے اور مارنے لگے، گھسیٹ کر مسجد حرام تک لے گئے، ایک گھنٹہ قید میں رکھا اور پھر چھوڑ دیا۔[2] سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اللہ کے راستہ میں سب مصائب کو برداشت کیا، ان کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی و نجات کی خوشی ہر مصیبت پر بھاری رہی، آپ پیچھے نہیں ہٹے، او رنہ ہی رسول کی پناہ گاہ کے بارے میں کسی کو مطلع کیا، پھر آپ مکہ کی آبادی میں چلے گئے، اور گلیوں و گزرگاہوں پر چل چل کر لوگوں کو وہ امانتیں واپس دے رہے تھے جسے واپس کرنے کی خاطر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے پیچھے چھوڑا تھا، چنانچہ جس جس کی جو امانت تھی
Flag Counter