Maktaba Wahhabi

98 - 1201
آپ نے اُسے اس تک پہنچا دیا۔ اس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ سے امانتوں کا بوجھ ہٹ گیا اور پھر تین دن مکہ میں گزارنے کے بعد علی رضی اللہ عنہ سفر ہجرت کی تیاری میں لگ گئے، تاکہ جلد ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوجائیں۔[1] بہرحال آپ نے ہجرت کاسفر جاری رکھا، دن میں روپوش رہتے اور جب رات اپنی سیاہ چادر پھیلاتی تو سفر شروع کردیتے، اس طرح چلتے چلتے مدینہ پہنچ گئے، چلنے سے دونوں پاؤں پھٹ چکے تھے۔ [2]دوران سفر آپ نے کافی تکلیف اٹھائی، کوئی سواری نہ تھی جس پر سوار ہوجاتے، دن میں چل نہ سکتے تھے کہ سخت گرمی پڑتی تھی، رات میں چلتے بھی تو وہ بھی دہشت بھری تاریکی اور تنہائی کا خوف، مزید براں پاپیادہ اور کوئی مونس و ہمسفر نہیں، ہم بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ کتنا پرپیچ راستہ، کلفتوں بھرا سفر اور مجسم غم والم کی تنہائی رہی ہوگی، لیکن ان تمام رکاوٹوں اور صعوبتوں کو بس ایک ہی شعور واحساس نے آسان بنا دیا تھا کہ میں سب کچھ محض اللہ کی رضا کے لیے کر رہا ہوں اور بالآخرعنقریب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملوں گا، مدینہ میں آپ کا پڑوسی بن کر امن و اطمینان سے لطف اندوز ہوں گا، چنانچہ برابر راستہ طے کرتے رہے اور مدینہ پہنچ کر بنوعمرو بن عوف کے یہاں ہو کر کلثوم بن الہدم کے یہاں گئے جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیام پذیر تھے۔[3] اس طرح امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی رودادِ ہجرت، قربانی، فدائیت، صبر وتحمل اور شجاعت و بے باکی کی ایک زندہ مثال ہے۔ قدومِ مدینہ کے وقت قبا میں اقامت کے دوران آپ نے ایک بیوہ عورت کو دیکھاجس کے گھر کافی رات گزرنے کے بعدایک آدمی آتا ہے اور دروازہ کھٹکھٹاتا ہے، وہ گھر سے باہر نکلتی ہے، آنے والا شخص اپنے ساتھ لائی ہوئی کوئی چیز اسے دیتا ہے اور وہ اسے لے لیتی ہے واقعہ کی تفصیل بزبان علی رضی اللہ عنہ سنئے: میں نے اجنبی بن کر خفیہ طریقہ سے اس شخص کے بارے میں جاننا چاہا، میں نے عورت سے پوچھا: اے اللہ کی بندی! وہ کون ہے جو تمھارے پاس ہر رات آتا ہے، تمھارا دروازہ کھٹکھٹاتاہے اور تم باہر آتی ہو، پھر وہ تمھیں کوئی چیز دیتا ہے، میں نہیں جانتا وہ کیا چیز ہوتی ہے؟ حالانکہ تم ایک بیوہ عورت ہو، اس نے جواب دیا: وہ سہل بن حنیف بن وہب ہیں، انھیں میرے بارے میں معلوم ہے کہ میں بیوہ ہوں، جب شام ہوتی ہے تو اپنی قوم کے بتوں کی خبر لیتے ہیں، انھیں توڑ دیتے ہیں، اور پھر میرے پاس لاتے ہیں اور کہتے ہیں لو انھیں ایندھن بنا لو، علی رضی اللہ عنہ یہ سن کر اسی دن سے سہل بن حنیف سے ایسے متاثر ہوئے کہ انھیں اپنا قریبی ساتھی بنا لیا، یہاں تک کہ آپ کے پاس ہی عراق میں ان کی وفا ت ہوئی۔[4] اس واقعہ میں ہمہ وقت چاق و چوبند اور بیدار مغز رہنے کی تصویر جھلک رہی ہے، جو ہر مسلمان کے اندر موجود ہونا چاہیے اور اسے اپنے گرد و پیش کی خبر رکھنا چاہیے، غافل نہیں ہونا چاہیے۔
Flag Counter